رپورٹ :ارباز شاہ
کسی بھی ریاست کا فرض ہے کہ وہ اپنے بے گھر بزرگ شہریوں کے لیےایسے مراکز قائم کرے جہاں عمررسیدہ افراد مشقت اور کسی کے سامنے ہاتھ پھیلائے بغیر باعزت طریقے سے اپنی زندگی بسر کرسکیں مگر بلوچستان میں بے گھر بزرگ شہریوں کے لیے سرکاری سطح پر کوئی اولڈ ایج ہوم موجود نہیں ہے ۔
کوئٹہ سمیت بلوچستان کے دیگر اضلا ع میں ایسے بے گھر بزرگ شہری جھونپڑیوں اور تھڑوں پر انتہائی بدحالی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔
70 سالہ رفیق خان کا مسکن کوئٹہ کے علاقے شالدرہ کا ایک تھڑا ہے ۔ جہاں وہ کھاتا پیتا اور سوتا ہے ۔دو سال پہلے تک وہ اپنے اکلوتے بیٹے کے ساتھ رہتا تھا مگر بیٹے کی وفات کے بعد وہ بے گھر ہوگیا ہے ۔
انکے مطابق خاندا ن کے دوسرے لوگ بھی انہیں قبول نہیں کررہے ہیں جس کی وجہ سے شدید سردی اور گرمی میں وہ تھڑے ہی کو اپنا گھر بنانے پر مجبور ہیں ۔
ان کے بقول ’’ مسلسل تھڑے پر رہنے ، مناسب خوراک اور ادویات نہ ہونے کی وجہ سے میں مزید بیمار ہوگیا ہوں ۔ مجھے یہ معلوم نہیں کی حکومت بے گھر افراد کو کہا ںجگہ دیتی ہے مگر میں یہ اپیل کرتا ہوں کہ مجھ جیسے بے گھر افراد کے لیے کوئی ٹھکانہ بنایا جائے ‘‘۔
کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں محمد رفیق کی طرح ایسے کئی بزرگ موجود ہیں جو کسی نہ کسی صورت گھر سے بے گھر ہیں اور تھڑوں پر اپنی باقی ماندہ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ایسے بزرگ بے گھر افراد کا اعداد و شمار خود حکومت کے پاس بھی موجود نہیں ۔
عام طور پر بلوچستان میں قبائلی معاشرہ ہونے کی وجہ سے لوگ بزرگ شہریوں کو اولڈ ایج ہومز نہیں لے جاتے مگر اب اس صورتحال میں تبدیلی آرہی ہے اور غیر سرکاری اداروں کی جانب سے بنائے گئے اولڈ ایج ہومز میں بڑی تعداد میں بزرگ شہریوں کو شیلٹر کی سہولت فراہم کی جارہی ہے ۔
کوئٹہ میں ایسا ہی ایک ادارہ 1695اسکوائر فٹ پر قائم بہبود عمررسیدہ افراد کے نام سے موجود ہے ۔ جس میں ان دنوں 6 کے قریب بے گھر عمر رسیدہ خواتین کو شیلٹر دیا گیا ہے ۔
ادارے کے سرپرست اعلیٰ برگیڈئر (ر) عبدالرزاق بلوچ نے بلوچستان 24کو بتایا کہ انکا ادارہ چندے سے چل رہا ہے اس ادارے کے لیے زمین حکومت بلوچستان نے دی ہے اور اسکی تعمیر پر4کروڑ روپے تک کا خرچہ آیا ہے جو کہ مخیر حضرات نے دی ہے ۔
انہوں نے بتایا کہ ہماری کوشش ہے کہ پہلے مرحلے میں کوئٹہ اور اس کے بعد صوبے کے دیگر اضلاع کے بے گھر بزرگ افراد کو یہاں پناہ دیں جنکو انکے بچے یا رشتہ دار گھروں سے نکال دیتے ہیں ۔
ادارہ’’ بہبود عمررسیدہ افراد‘‘میں موجود96سال کی بی بی حاجرہ نے بلوچستان 24کو اپنی کہانی سناتے ہوئے کہا کہ انکا ایک بیٹا کینڈا میں مقیم ہے اور اسکا کوئی نہیں جس کی وجہ سے وہ یہاں دوسال رہ رہی ہیں ۔
انکے بقول ’’میں نے اپنے بیٹے کو کام کے غرض سے کینڈا بھجوایا تھا ۔ میرے بیٹے نے کینڈا میں شادی کرلی اور وہ واپس نہیں آیاجس کی وجہ سے میں بے گھر ہو گئی ہوں ۔
بی بی حاجرہ اب اس ادارے میں خوش ہیں اورانہیں تمام سہولیات میسر ہیں جن میں کھانا پینا ، ادویات ، کپڑے اور زندگی کی دیگر بنیادی ضروریات شامل ہیں ۔
بلوچستان کی معروف سماجی اور انسانی حقوق کی کارکن جلیلہ حیدر نے اس حوالے سے ’’بلوچستان 24‘‘ سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ حکومت کو چائیے کہ وہ صوبے بھر میں بے گھر بزرگ شہریوں کو پناہ دینے کے لیے اولڈ ہاوسز قائم کئے جائیں۔
انکے مطابق اولڈ ایج ہاوسز کو دارالامان کی طرز پر نہیں ہونا چائیے جو جیل کی طرح ہو بلکہ ایک خوبصورت ماحول میں ان اداروں کے قیام کو ممکن بنایا جائے ۔
جلیلہ حیدر کے مطابق ’’ حکومت ایسے بزرگ شہریوں کو شیلٹر کے ساتھ صحت انشورنس اور راشن کارڈز کی فراہمی کے لیے اقدامات کریں تاکہ بزرگ شہری اولڈ ایج ہومز میں بھی گھر جیسے سہولیات سے مستفید ہوسکیں ‘‘ ۔
دوسری جانب حکومت بلوچستان کا دعویٰ کے کہ سماجی بہبود کے ادارے کے تحت کوئٹہ میںمرد اور خواتین کے دو اولڈ ایج ہومز تعمیر کئے گئے ہیں
ڈپٹی ڈائر یکٹر سوشل ویلفیئر محمد حنیف رند نے ’’بلوچستان 24‘‘ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ حکومتی سطح پر بنائے گئے دونوں اولڈ ایج ہومز میں ابھی تک فنڈز ریلیز نہ ہونے کہ وجہ سے کام شروع نہیں ہوسکا مگر امید ہے کہ جلد ہی ان دونوں اداروں کو فعال بنایا جائے گا ۔
اعداد و شمار کے مطابق دونوں اولڈ ایج ہومز میں پہلے مرحلے پر 40بزرگ شہریوں کے لیے جگہ بنائی گئی ہے مگر اس میں مزید اضافہ کرنے کا بھی امکان ہے ۔
محمد حنیف رندنے بتایا کہ ’’ ان اولڈ ایج ہومز میں صرف ایسے بزرگ شہریوں کو رکھا جائے گا جو بے گھر ہیں ۔ حکومت کی کوشش ہے کہ ان اداروں کو ڈویژن اور بعد میں ضلع کی سطح تک وست دی جائے ‘‘۔
حکومتی سطح پر بنائے گئے اولڈ ایج ہومز میں بزرگ شہریوں کو شیلٹر کے علاوہ دیگر سرگرمیوں کے حوالے سے بھی سہولیات فراہم کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔
دوسری جانب انسانی حقوق پر کام کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں ایسے بہت سے بزرگ شہری موجود ہیں جن کو اولڈ ایج ہومز کا سہارا چائیے مگر قبائلی سسٹم کی وجہ سے لوگ اولڈ ایج ہومز کا رخ کم ہی کرتے ہیں انکے مطابق محکمہ سماجی بہبود کو اس سلسلے میں شعور و آگاہی پھیلانے کی ضرورت ہے ۔