چین میں سیاسی آزادیوں اور کورونا وائرس سے بچنے کے لیے لاک ڈاؤن کو ختم کرنے کا مطالبہ کرنے والے مظاہرین کو سیکیورٹی فورسز نے حراست میں لے لیا۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق چین کے اہم شہروں میں ہزاروں افراد نے جامعات کے سامنےلاک ڈاؤن ختم کرنے اور سیاسی آزادی دینے کے لیے مظاہرے کیے، جہاں 1989 میں جمہوریت پسندوں کی طرف سے نکالی گئی ریلیوں کو کچلنے کے بعد پہلی بار مظاہرے شروع ہوئے ہیں۔
شمال مغربی چین کے علاقے ارومچی میں گزشتہ ہفتے ایک مہلک آگ سے عوامی ردعمل سامنے آیا جہاں بہت سے لوگوں نے کورونا وائرس سے متعلق لاک ڈاؤن کو ریسکیو عمل کی کوششوں میں رکاوٹ بننے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔
حکومت نے مہلک آگ کا ذمہ دار لاک ڈاؤن کو ٹھہرانے کا الزام کچھ خاص مقاصد والے افراد پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ حکام نے حقیقت واضح کرکے افواہوں کو مسترد کردیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق چین مظاہرین سیاسی آزادیوں کا مطالبہ کر رہے ہیں جن میں سے کچھ تو چینی صدر کے استعفے کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں جو کو حال ہی میں تیسری بار ملک کے صدر منتخب ہوئے ہیں۔
گزشتہ روز دارالحکومت بیجنگ اور شنگھائی کے مرکز میں لوگوں کے بڑے ہجوم جمع ہوئے جہاں پولیس کی مظاہرین کے ساتھ جھڑپیں بھی ہوئیں۔
رپورٹ کے مطابق اسی علاقے میں سیکڑوں افراد نے کاغذ کی خالی شیٹس اور پھولوں کے ساتھ ’خاموش‘ ریلی بھی نکالی۔
ادھر برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) نے کہا ہے کہ شنگھائی میں مظاہروں کی کوریج کرنے والے ان کے صحافی کو پولیس نے گرفتار کرلیا ہے مگر چین کی وزارت خارجہ نے کہا کہ رپورٹر نے خود کی شناخت نہیں کی۔