نصیر آباد کے سیاسی مہمان خانے

تحریر: عبدالرزاق بنگلزئی

نصیرآباد میں الیکشن کی آمد آمد ووٹرز کی خوب آئو بھگت شروع چند ایک سیاسی امیدوار پانچ سال تک کسی کو نہ کھانا کھلائے نہ چاہے پیلائے اب وہ چائے کے بجائے ووٹرز کو کھانا کھلا رہے ہیں۔ فالحال نہ ووٹرز کو پتہ ہے کہ ووٹ کس کو دینگے نہ الیکشن میں حصہ لینے والوں کو پتہ کہ ہمیں کون ووٹ دےگا۔ بہر حال صورت حال یہ ہے کہ یہ دو تین مہینے ووٹرز کو الیکشن لڑنے والوں کی طرف سے خوب عزت ملےگا چائے اور کھانا اپنی جگہ پہ امیدواران اپنے حامیوں کے جیب بھی گرم کرینگے ۔ نصیرآباد میں ایسے بھی شریف نفیس عوامی نمائندے موجود ہیں جن کو ووٹرز کبھی بھی بلیک میل نہیں کریں گے کیونکہ وہ اقتدار میں آکر کبھی غریبوں کے زمینوں پر نہ قبضہ کیا اور نہ ہی اپنے رشتہ داروں نہ اپنے خاص حمایتوں کے ذریعے نہ کوئی خالی سرکاری پلاٹس پر قبضہ گیری کئیے۔نہ کسی مقامی صحافی پر حملہ کروائے نہ اپنے حلقہ انتخاب میں کسی کو بھی آپس میں دست و گریبان نہیں کروائے نہ کسی سیاسی مخالفین پر کوئی ایف آئی آر درج کروائے نہ پولیس کے ذریعے کسی پر دباؤ ڈالیں جبکہ ایسے عوامی نمائندہ کا مہمان خانہ ہے اس کے بارے میں مشہور ہے کہ کوئی بھی مہمان اگر آجائے تو وہ بہت زور سے آواز بلند کرتے ہوئے چلاتا ہے اور اپنے خدمت گار کو کہتا ہے کہ مہمانوں کے لئے فوراً پانی چائے لیکر آئو لیکن آدھا گھنٹہ یا گھنٹہ گزرنے کے باوجود بھی نہ پانی ملتا ہے نہ چائے ملتی ہے وہ ووٹرز بچارے ایسے ہی چلے جاتے ہیں ہاں اگر ان کے پاس کوئی بڑی شخصیت تشریف لائے تو ان کی خوب آو بھگت کی جاتی ہے ان کو وقت دیا جاتا ہے لیکن کھانا ان کو تب دی جاتی ہے جب انتخابات میں چند روز باقی رہ جائے۔ یہ حقیقت ہے کوئی مانے یا نہ مانیں اس کے علاوہ ایک ایسا مہمان خانہ بھی موجود ہے اگر کوئی شخص یا ووٹرز تشریف لائیں تو بغیر مالک کے مہمانوں کو چائے مشروبات اور کھانا وغیرہ سب کچھ پیش کیا جاتا ہے جبکہ ایک ایسا مہمان خانہ موجود ہے کہ الیکشن کے دوران اپنے حمایتی لوگوں کے ساتھ ورک مکمل کرکے جب واپس لوٹ کر تمام ساتھیوں کو راستے میں گاڑیوں سے اتار کر خدا حافظ کہہ کر پھر شام کو ملیں گے کا بہانہ کرکے آرام سے خود گھر جاکر اپنے چند کھٹالی کے یاروں کے ساتھ کھانا کھا کر چائے پیتا ہے جبکہ ان کے ساتھ ورک کرنے والے بیچارے بھوکے پیاسے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں پھر ان کے گھروں میں ان کے لئے کھانے کا بھی کوئی بندوبست نہیں ہوتا ہے۔ نصیرآباد کے باشعور عوام سب کچھ جاننے کے باوجود بھی اس لئے خاموش رہتے ہیں تاکہ ان میر اور معتبروں کو کچھ کہنے پر لوگ ان غریبوں کو طعنہ نہ دیں کیونکہ امیر لوگ رشوت کھائیں کرپشن کرے۔جھوٹ بولیں ان کو کوئی طعنہ کا معیار نہیں دیتا ستم ظریفی یہ ہے کہ اگر غریب ہاری مزدور ووٹر کچھ بولیں تو ان کو بھوکا۔ نادیدہ۔ کا طعنہ دیا جاتا ہے۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.