خلاء میں دیوقامت غبارے کے علاوہ ایسی روشنی جو انسانی آنکھ سے دکھائی نہیں دیتی ۔

0

بلوچستان 24 ویب ڈیسک

اس مشنمیں دیوقامت غبارے کے علاوہ خاص قسم کی ٹیلی اسکوپ بھی بھیجی جائے گی جس سے ایسی روشنی کو پرکھا جا سکتا ہے جو انسانی آنکھ سے دکھائی نہیں دیتی۔

یہ بھی پڑھیں
1 of 8,869

جس غبارے کو اس تجربے میں استعمال کیا جائے گا وہ پھولنے کے بعد 400 فٹ چوڑا ہوگا۔ ٹیلی اسکوپ کے علاوہ ایک کولنگ سسٹم بھی ہو گا جو آلات کو ٹھنڈا رکھے گا۔‘ایستھروس’ نام کا یہ مشن انٹارکٹیکا سے دسمبر2023 میں روانہ کیا جائے گا اور تین ہفتوں تک فضا کے اختتام پر اس جگہ رہے گا جہاں اوزون کی تہہ موجود ہے۔ ناسا کے سائنس دان زمین سے ٹیلی اسکوپ کو کنٹرول کر سکیں گے اور اس کا ڈیٹا فوری تجزیے کے لیے ڈاؤن لوڈ کیا جا سکے گا۔

فارانفراریڈ ویولینتھ روشنی کو انسانی آنکھ سے نہیں دیکھا جاسکتا لیکن ان کی مدد سے خلا کے ان مقامات میں گیس کی مقدار اور رفتار کا پتا چلایا جاسکتا ہے جہاں ستارے تخلیق ہورہے ہوں۔بنیادی طور پر اس مشن کے دو اہداف مقرر کیے گئے ہیں۔ ایک میسیئر 83 نام کی کہشاں جو زمین سے ڈیڑھ کروڑ نوری سال کے فاصلے پر موجود ہے اور روشن ترین کہکشاں ہے۔ دوسرا ہدف ٹی ڈبلیو ہائیڈرائی نام کا ستارہ ہے جس کے گرد گَرد اور گیس کا غبار ہے جہاں نئے سیارے تخلیق ہوسکتے ہیں۔

ٹیلی اسکوپ ستاروں کی تخلیق اور اس عمل کی معلومات جمع کرے گی جسے ‘اسٹیلر فیڈبیک’ کہا جاتا ہے۔ جب عظیم الجثہ ستارے ٹوٹتے ہیں تو وہ اپنے مواد کو خلا میں پھینکتے ہیں۔ان کے پھٹنے سے مواد بکھر بھی سکتا ہے اور ایک جگہ جمع ہو کر نئے ستارے بھی بن سکتے ہیں۔ اسٹیلر فیڈبیک کے بغیر کہکشاں کا مادہ اور گیس مل کر نئے ستارے نہیں بنا سکتے۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.