رپورٹ ۔۔۔۔۔محمد غضنفر
بلوچستان میں ڈاکٹر برادری تشویش کا شکارہے حکومت ڈاکٹر ابراہیم کی بازیابی کو ممکن نہ بناسکی جنرل بادی کا اجلاس بلا کر بلوچستان میں سرکاری اسپتالوں کی او پی ڈیز کھولنے کافیصلہ کرینگے
ہمیں بتایا کہ گیا کہ ڈاکٹر ابراہیم پر تشدد کیا جاتا رہاانہیں کل کراچی کے ایک مقام پر چھوڑا گیا تھا ذاتی مفاد کا معاملہ نہیں تھا بلکہ ہم نے ڈاکٹرز کے تحفظ کی بات تھی
چیئرمین ڈاکٹر ز ایکشن کمیٹی نے انکشاف کیا کہ ڈاکٹر ابراہیم نے رہائی کے بدلے میں اغواکاروں کو 5 کروڑ کے لگ بھگ تاوان ادا کیا
وکلاء نے ہائیکورٹ میں پٹیشن دائر کی ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ ڈاکٹروں کوتحفظ فراہم کیا جائے
ہم حکومت کو بتارہے ہیں کہ اگر آئندہ ایسا ہوا تو ایسا احتجاج نہیں ہوگا ڈاکٹرز تنظیموں پرڈاکٹرز کا بہت زیادہ دباؤ تھا کہ اسپتال کی ایمرجنسی سمیت تمام شعبوں کابائیکاٹ کیا جائے اور ریلی نکال کراحتجاج کیا جائے لیکن سکیورٹی کے پیش نظر اور عوام کی مشکلات کے مد نظر ہم نے ایسا فیصلہ لینے سے گریز کیا
مستقبل میں اگر ایسا واقعہ پیش آتا ہے تو ہم اپنے لوگوں کا غصہ ٹھنڈا نہیں کرسکتے حکومت ایسا ماحول پید انہ کرے کہ ہم احتجاج کی شدت پر چلے جائیں
ڈاکٹر ز ایکشن کمیٹی کے مطابق پچھلے دس سالوں کے دوران 93ماہر ڈاکٹرز بلوچستان چھوڑ کر چلے گئے اس دوران 33ڈاکٹروں کواغوا کیا گیا جبکہ چھ ڈاکٹروں کوکلینک سے گھر آتے جاتے ہوئے اغوا کرنے کی کوشش کی گئی
یہ صرف ایک مائنڈ سیٹ ہے کہ بلوچستان کے اچھے ڈاکٹرز کو تنگ کیا جائے اور وہ یہاں سے چلے جائیں پیسے تو اور لوگوں کے پاس بھی ہیں ہم نے سیکرٹری ہوم اور وزیر داخلہ اور آئی جی پولیس بلوچستا ن کو تجویز دی ہے کہ ڈاکٹرز کو ٹیبل پر لائیں ا ور ان کیساتھ پلان شیئر کریں اور معاملے کو آخری حل کی طرف لے جائیں
واضح رہے کہ معروف نیورو سرجن ڈاکٹرابراہیم خلیل بھی 48روز بعد بازیاب ہوکر گھرپہنچ گئے