بلوچستان کے معذور افراد‌ بنیادی حقوق سے محروم‌

رپورٹ: محمد غضنفر 

حکومت بلوچستان کی جانب سے حال ہی میں ڈس ایبلٹی بل 2018کو اسمبلی سے منظور تو ہو گیا تاکہ معذور افراد کو ان کا حق دلایا جائے تاہم معذور افراد اور انکی فلاح کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں اس بل کو صرف کاغذی کارروائی قرار دے رہی ہیں۔

سعید اللہ بچپن میں اپنی معذوری کی وجہ سے اسکول نہیں جاسکے انکی یہی معذوری اب روزگار کی راہ میں بھی رکاوٹ بن گئی ہے۔ وہ اب تک محکمہ تعلیم،صحت ،مواصلات ،کھیل ،بی اینڈ آر سمیت 17سرکاری محکموں میں ملازمت کے لیے درخواست جمع کراچکے ہیں مگر کہیں سے بھی انہیں کوئی جواب نہیں آیا۔

یہ بھی پڑھیں
1 of 8,946

سعید اللہ کے بقول ’’ بچپن میں بھی معذوری کی وجہ سے مجھے اسکولوں میں داخلہ نہیں ملتا ، یہ میرا بنیادی حق تھا مگر اس سے مجھے محروم رکھا گیا۔ اب جب میں سرکاری محکموں میں ملازمت کے لیے درخواست دیتا ہوں تو وہ یہ کہہ کر منع کردیتے ہیں کہ میری تعلیمی قابلیت کم ہے اکثر سرکاری محکموں کی انتظامیہ کی جانب سے یہ کہا گیا کہ معذور افراد کے لیے ان کے پاس کوئی کام نہیں ہیں

یہ مسئلہ صرف سعید اللہ کا نہیں ہے بلکہ صوبے میں 12ہزار سے زائد رجسٹرڈ معذور افراد کا مسئلہ ہے جن کو ملازمتوں میں 5فیصد کوٹہ کے اعلان کے باوجود ان کا حق نہیں مل رہا ہے۔

سعید اللہ

اس حوالے سے آوازمعذوران بلوچستان کے صدر عزت اللہ نے بلوچستان 24سے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ ہماری تنظیم میں بلوچستان بھر سے پانچ سو معذور افراد رجسٹرڈ ہیں تاہم کسی بھی معذور کو بلوچستان کے کسی محکمے میں بھی ملازمت نہیں ملی ہے۔اس سے پہلے جب بلوچستان کے سرکاری ملازمتوں میں معذو رافراد کیلئے دو فیصد کوٹہ مختص کیا گیا تھا تب بھی معذور افراد کومستفید ہونے نہیں دیا گیا۔

عزت اللہ نے حکومت پر یہ الزام لگایا کہ صوبائی حکومت نے معذوروں کوسہولیات اوران کو حقوق فراہم کرنے کے بجائے صرف برائے نام ایک بل پاس کیاجس میں ملازمتوں میں کوٹہ بڑھاکر پانچ فیصد تو کردیا مگر یہ محض کاغذی کارروائی ہے۔

عزت اللہ کے بقول ’’صرف ملازمتیں ملنا ہی معذور افراد کا مسئلہ نہیں بلکہ مختلف شعبوں میں ہمارا سوشل اسٹیٹس متاثر ہورہاہے ریاست ہمیں برابری کی نگاہ سے نہیں دیکھتا۔ملک میں کم وبیش ایک کروڑ اسی لاکھ کے قریب معذور افراد موجود ہیں تاہم ہمیں قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں کوئی نمائندگی نہیں دی گئی‘‘

عزت اللہ نے اس بات پر زور دیا کہ اگر حکومت واقعی معذور افراد کو ان کا حق دینے کیلئے سنجیدہ ہے تو وہ نہ صرف پانچ فیصد ملازمتوں کے کوٹہ پر عمل درآمد یقینی بنائے بلکہ انہیں سرکاری اور نیم سرکاری تعلیمی اداروں کی فیسوں،سفری سہولیا ت،صحت اور دیگر شعبوں میں پچاس فیصد چھوٹ دے۔

ڈس ایبلٹی بل 2018کے تحت نہ صرف معذوروں کے کوٹہ میں اضافہ کیا گیا ہے

محمد حنیف رند محکمہ سماجی بہبود کے ڈپٹی ڈائریکٹر ہیں انہوں نے بلوچستان 24کو بتایا کہ معذور افراد کا مسئلہ صرف بلوچستان کانہیں بلکہ پورے ملک کا ہے۔بلوچستان حکومت نے حال ہی میں ڈس ایبلٹی بل 2018کو اسمبلی سے منظور کرایا ہے۔جس کے باعث اب معذور افراد کے حقوق کو آئینی تحفظ حاصل ہوا ہے۔ماضی میں اگر معذورافراد کے سرکاری ملازمتوں میں دو فیصد کوٹہ پر عمل درآمد نہیں ہوا مگر اب صوبائی حکومت اورمحکمہ سوشل ویلفیئر اس معاملے میں سنجیدہ ہیں۔

محمدحنیف رند نے بتایا کہ ’’ڈس ایبلٹی بل 2018 پر مکمل طور پر عمل درآمد شروع کردیا گیا ہے جہاں تک ملازمتوں میں پانچ فیصد کوٹہ پر عمل درآمد کی بات ہے تو محکمہ پولیس،سی اینڈ ڈبلیو اوردیگر محکموں کی طرف سے مشتہر اسامیوں پر معذوروں کے کوٹہ پر عمل درآمد نہ کرنے پر ان محکموں کو مراسلہ بھیجاگیا ہے کہ وہ اس بل کی خلاف ورزی سے گریز کریں۔

واضح رہے کہ ڈس ایبلٹی بل 2018کے تحت نہ صرف معذوروں کے کوٹہ میں اضافہ کیا گیا بلکہ پبلک مقامات پر ان کیلئے جگہ مخصوص کرنے اورسرکاری اورنیم سرکاری دفاتر میں ویل چیئرز کیلئے ریمپ تعمیر کرنے،نیم سرکاری اسکولوں اوراسپتالوں میں فیسوں میں پچاس فیصد کمی کرنے،معذوروں کو ہیلتھ کارڈ جاری کرنے اورماہانہ مبلغ تین ہزار روپے معاوضہ فراہم کرنے کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔

بلوچستان میں معذور افراد اوردیگر سماجی مسائل پر کام کرنیوالی تنظیم کوئٹہ آن لائن کے روح رواں ضیاء خان نے اس موضوع پر بلوچستان 24سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ صوبے میں رجسٹرڈ ڈس ایبل افراد کی تعداد 12ہزار پانچ سو کے قریب ہے ڈس ابیلٹی بل کی تشکیل کے دوران ہماری تنظیم نے بھی بہت کام کیا یہ بل معزور افراد کے روشن مستقبل کی ضمانت ہے اگر اس بل پر پچاس فیصد عمل درآمد ہو تو بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔موجودہ حکومت اس بل پر عمل درآمد کرانے کیلئے سنجیدہ نظر آتی ہے جو مثبت پیش رفت ہے۔

ضیاء خان نے بتایا ’’ ان کے معلومات کے مطابق معزور افراد کو ماہانہ معاوضہ فراہم کرنے کیلئے پی سی ون وزیراعلیٰ بلوچستان کو ارسال کردیا گیاہے سپریم کورٹ کی جانب سے بھی معذور افراد کے ملازمتوں میں پانچ فیصد کوٹہ پر عمل درآمد کرانے کیلئے فیصلہ آچکا ہے۔ہم امید کرتے ہیں باقی مسائل کے حل کیساتھ معذور افراد کو ہاؤ سنگ اسکیموں میں بھی پچاس فیصد رعایت دی جائیگی۔

معذور افراد کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے مطابق صوبے میں معذور افراد کی تعداد لاکھوں میں ہے مگر بد قسمتی سے گزشتہ سال ہونے والے مردم شماری میں انکا کا ڈیٹا جمع نہیں کیا گیا اصل تعداد معلوم نہ ہونے کی وجہ سے ان کو وسائل فراہم کرنا ناممکن ہے یہ تنظیمیں حکومت سے مطالبہ کرتی ہیں کہ معذور افراد کے حقوق کے لیے اور انکے مسائل کے حل کے لیے ایک الگ ادارہ قائم کیا جائے۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.