سونا اگلنے والی سرزمین کے باسی پسماندہ کیوں ہیں؟

تحریر: فاروق رند

ضلع چاغی مسائل کا گڑھ بن چکا ہے، جہاں کے عوام کو صحت، تعلیم، اور روزگار جیسے بنیادی مسائل کا سامنا ہے۔

کسی بھی معاشرے کو اس وقت ترقی یافتہ تصور کیا جاتا ہے جب اس کے افراد کو ان کے بنیادی حقوق میسر ہوں۔

لیکن اس جدید دور میں بھی چاغی کے عوام سو سال پرانی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

سوال یہ ہے کہ آخر کب تک چاغی کے عوام اس طرح بدحالی اور کسمپرسی کی زندگی گزاریں گے؟

اس صورتِ حال پر عوام کو غور کرنا ہوگا اور سمجھنا ہوگا کہ اشرافیہ کے کلچر کو ختم کرنا ضروری ہے۔

تبدیلی کے لیے مڈل کلاس قیادت کو سپورٹ کرنا ہوگا، اپنے آپ کو تبدیل کرنا ہوگا، اور اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانی ہوگی۔

جب تک بنیادی حقوق اور مسائل حل نہیں ہوں گے، عوام اسی طرح پسماندگی کی زندگی گزارنے پر مجبور رہیں گے۔

پسماندگی سے نکلنے کا واحد راستہ تعلیم کا فروغ ہے۔ ہمیں اپنے بچوں، خصوصاً بچیوں کو تعلیم دینی ہوگی۔

جب تک تعلیم کے حصول کے لیے جدوجہد نہیں کریں گے، ہمیں یہ معلوم نہیں ہوگا کہ ہمارے بنیادی حقوق کیا ہیں اور انہیں کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے۔

چاغی، جو کہ ایک سرحدی ضلع ہے، قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ اس کے پہاڑوں میں بیش بہا معدنی ذخائر موجود ہیں۔

پاک ایران اور افغانستان کی سرحدیں اس ضلع سے ملتی ہیں اور انٹرنیشنل روٹس بھی یہاں سے گزرتے ہیں۔

اس ضلع کو اللہ نے ایک خاص مقام دیا ہے، مگر یہاں کے باسی آج بھی بدترین حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

چاغی، جو 44 ہزار اسکوائر کلومیٹر پر محیط ہے، اپنی منفرد اہمیت رکھتا ہے۔

انٹرنیشنل اور ملٹی نیشنل کمپنیاں یہاں سرمایہ کاری کر رہی ہیں، مگر ضلع کی ترقی محض زبانی باتوں اور فوٹو سیشنز تک محدود ہے۔

صرف ایک اسکول یا اسپتال کے قیام سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ ہمیں ضلع کی اہمیت کو سمجھ کر اس کے وسائل سے بھرپور فائدہ اٹھانا ہوگا۔

چاغی کی اہمیت کے باوجود یہاں کے عوام کو بنیادی وسائل سے محروم رکھا جا رہا ہے۔

اس کا ذمہ دار کون ہے؟ عوامی نمائندے، قبائلی تعصبات، یا ہماری اپنی تقسیم؟ ان تمام پہلوؤں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

ہمیں ایک قوم کی طرح، ایک آواز ہو کر اپنے مسائل کے حل کے لیے جدوجہد کرنی ہوگی۔

سیاسی، علاقائی، اور قبائلی تعصبات سے بالاتر ہو کر اجتماعی شعور پیدا کرنا ہوگا۔

صحت کے حوالے سے ضلع بھر میں کوئی تسلی بخش سہولت موجود نہیں۔

ذرائع آمدورفت کی حالت یہ ہے کہ ہم آج بھی ایک سنگل ٹوٹی پھوٹی سڑک پر سفر کرنے پر مجبور ہیں۔

تعلیمی نظام بدترین ہے، اور غربت کی وجہ سے ہم اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم نہیں دلوا سکتے۔ صاف پانی اور بجلی کی سہولیات بھی انتہائی ناقص ہیں۔

ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم انفرادی مقاصد کے لیے جدوجہد کرتے ہیں، مگر اجتماعی مسائل پر توجہ نہیں دیتے۔

ہمیں خوشامدی رویوں سے نکل کر اجتماعی سوچ اپنانا ہوگی۔

آج اگر ہم دنیا کی بات چھوڑ دیں تو اپنے قریبی اضلاع سے بھی کئی سال پیچھے ہیں، حالانکہ ہم معدنی وسائل سے مالا مال ہیں۔

روزگار کی تلاش کے لیے بھی ہمیں دوسروں کے سامنے جھکنا پڑتا ہے، جو کہ ہمارا بنیادی حق ہے۔

اگر ہم نے اپنے وقت کو ضائع کیا تو مستقبل میں ہاتھ میں کچھ نہیں ہوگا۔

چاغی کے عوام کو آج تک کسی سیاسی رہنما نے درست راستہ دکھانے کی کوشش نہیں کی۔

جو بھی آتا ہے، وہ اپنی ذاتی مفادات کے حصول کے بعد عوام کو نظرانداز کر دیتا ہے۔

ہمیں انتخابات کے وقت بھی سوچنا ہوگا۔ پیسے اور اشرافیہ کو بار بار آزمانا دانشمندی نہیں۔

اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے 75 سالہ پسماندگی کے تسلسل کو توڑیں اور اپنے حقوق کے لیے مضبوط آواز بنیں۔

اس کے لیے ہمیں شعور، تعلیم، اور اجتماعی فکر کو اپنانا ہوگا۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.