کو ئٹہ : سوئی سدرن گیس کمپنی کے جنرل منیجر مدنی صدیقی نے کہا ہے کہ کوئٹہ اور صوبے کے دیگر اضلاع میں گیس پریشر کی کمی اور لوڈ شیڈنگ کا باعث گیس چوری،میٹر ٹیمپرنگ اور غیر قا نونی طور پر کمپریسرز کا استعمال ہے، جو میٹرز کم چلتے ہیں شک کی بنا پران کے بلوں میں پی یو جی /سلو میٹر چارجز شامل کرتے ہیں جو گرمیوں میں ما ہا نہ 800روپے جبکہ سردیوں میں 3000ہزار روپے ہیں۔
بلوچستان میں تیز میٹرز کی تنصیب کا تاثر درست نہیں،مانتا ہوں نواں کلی کو گیس کی فراہمی نہیں ہو رہی، صو با ئی دارالحکومت کو ئٹہ میں بڑھتی ہوئی آبادی کی گیس ضروریات کو پورا کرنے کے لیے 3ارب روپے کی خطیر رقم سے نئی پائپ لائنیں بچھائی جا رہی ہیں، سیکورٹی بناء پر ایسے وقت میں صارفین کے میٹر اتار کر لے جاتے ہیں جب کوئی نہیں ہوتا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایوان صنعت و تجارت کوئٹہ بلوچستان کے عہدیداران و ممبران کے ساتھ منعقدہ اجلاس کے موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کیا۔
اس سے قبل چیمبر آف کامرس کے صدر فدا حسین دشتی، سینئر نائب صدر محمد ایوب مریانی اور نائب صدر امجد علی صدیقی ایڈووکیٹ نے جی ایم سوئی سدرن گیس کمپنی کو ان کے وفد سمیت چیمبر آنے پر خوش آمدید کہتے ہوئے کہاکہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں صارفین کو گیس کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے بلکہ شک کی بناء پر سلو میٹر چارجز کی صارفین سے وصولی اور بلز نہ بھیجنے، ٹیمپرنگ اور دیگر وجوہات کی بناء پر میٹرز اتارنے سمیت دیگر کا صارفین کو سامنا ہے۔ آدھے سے زیادہ بلوچستان کو پہلے ہی گیس کی سہولت میسر نہیں جن اضلاع کو گیس کی سپلائی کی جارہی ہے وہ صارفین کی ضروریات پوری کرنے کے لئے انتہائی محدود ہیں۔
اس موقع پر جنرل منیجر سوئی سدرن گیس کمپنی کا کہنا تھا کہ کوئٹہ شہر کی آبادی میں بے تحاشا اضافہ،گیس چوری، میٹر ٹیمپرنگ جیسے مسائل کے باعث گیس کی ضروریات پوری کرنے میں کمپنی کو مشکل پیش آرہی ہے تاہم بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر کوئٹہ شہر میں پائپ لائنیں بچھانے کے ماسٹر پلان پر 3ارب روپے کی خطیر رقم سے کام کیا جارہا ہے، مشرقی بائی پاس سے پشتون آباد اور شہر کے دیگر علاقوں تک 16قطر کے 13کلو میٹر جبکہ 2کلو میٹر پائپ لائن سریاب روڈ سے گائی خان چوک تک لائن بچھائی جارہی ہے۔
انہوں نے کہاکہ نواں کلی کو گیس کی فراہمی نہیں ہورہی، 17کلو میٹر 12انچ کی پائپ لائن زرغون آباد سے ایف سی ہسپتال و دیگر تک بچھانے کا منصوبہ ہے اب تک 9.5کلو میٹر پائپ لائن بچھائی جاچکی ہے جبکہ 7.5کلو میٹر پائپ لائن کام کیا جانا باقی ہے۔انہوں نے کہاکہ 60فیصد لاسز کے باعث 14بلین روپے پنالٹی میں بلوچستان کا حصہ 12بلین ہے۔ انہوں نے کہا کہ کمپنی کے پاس لائے جانے والے 55فیصد میٹرز ٹیمپر ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کم چلنے والے میٹرز کے صارفین کو شک کی بنیاد پر گرمیوں میں 8سو جبکہ سردیوں میں 3ہزار روپے تک سلو میٹر چارجز بھیجے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گیس چوری کے تدارک کے لئے کمپنی کی جانب سے کارروائی جاری ہے گرمیوں میں سلو میٹر چارجز کی مد میں 8سو جبکہ سردیوں میں 3ہزار روپے صارف کو چارج کر تے ہیں انہوں نے کہا کہ عدالت عالیہ کے حکم پر کوئٹہ شہر میں کمپریسر استعمال اور فروخت کرنے والوں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی گئی اور ایک ہفتے کے دوران 4ہزار کمپریسر برآمد کئے گئے، مگر اب پھر صورتحال جوں کے توں ہے انہوں نے کہاکہ یہ سچ ہے کہ پاکستان میں سب سے پہلے گیس سوئی میں دریافت ہوا بلکہ اس گیس فیلڈ نے 50 سال تک ملکی صارفین کی ضروریات پوری کی تاہم اب ملک میں 70 فیصد گیس کی ضروریات سندھ جبکہ 15 فیصد بلوچستان پورا کرتا ہے باقی گیس خیبر پختونخوا اور پنجاب سے مل رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سیکورٹی کے پیش نظر صارفین کے میٹر اس وقت اتارے جاتے ہیں جب کوئی نہیں ہوتا کیونکہ جس بھی صارف کو پتہ چلے کہ اس کے گھر دکان کامیٹر اتارنا رہا ہے وہ مزاحمت شروع کر دیتا ہے،انہوں نے کہا کہ میں چیلنج سے کہتا ہوں کہ بلوچستان میں تیز میٹرز نہیں لگائے گئے میں میٹر بنانے والی کمپنی میں خدمات انجام دے چکا ہوں جہاں سالانہ 8لاکھ میٹرز تیار کئے جاتے ہیں مگر صرف سوئی نادرن گیس کمپنی کی سالانہ ضرورت 12لاکھ میٹرز ہیں نئے تیار ہونے والے میٹرزمیں سے پانچ سے چھ لاکھ میٹرز سوئی نادرن گیس کمپنی کو فراہم کئے جاتے ہیں جبکہ وہ اپنی باقی ضروریات باہر سے پوری کرتے ہیں بلوچستان میں زیر استعمال میٹرز معیاری اور بہترین ہے،انہوں نے کہا کہ میں تسلیم کرتا ہوں کہ نواں کلی اور کچھ علاقوں کو گیس کی فراہمی نہیں ہو رہی میں سندھ اور بلوچستان کا جواب دہ ہوں پنجاب کا نہیں،پنجاب میں گیس چوری ہوتی ہے تو یہ وہاں کا معاملہ ہے بہرحال چوری کی مذمت کرنی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ٹیرف کا مسئلہ حکام بالا ہی حل کرا سکتے ہیں۔اجلاس کے دوران ممبران نے شک کی بنیاد پر پی یو جی /سلو میٹر چارجز کی وصولی و دیگر کے بارے میں مدنی صدیقی سے شکایات کی اور شکوہ کیا کہ کمپنی کا رویہ بلوچستان میں صارفین کے ساتھ امتیازی ہے یہاں سالوں میں ایک گیس کنکشن تک نہیں دی جاتی،کوئٹہ کے مضافاتی علاقوں کو گیس کی سپلائی نہیں ہو رہی تو دیگر اضلاع کی کیا صورتحال ہو گی انہوں نے کہا کہ کوئٹہ کے علاقے اغبرگ اور دیگر تک گیس پائپ لائن ہی نہیں بچھائی جا سکی ہے جبکہ دوسری جانب گیس پائپ لائن ملک کے دیگر اکائیوں کے طول و عرض تک پہنچا دی گئی ہے جو مایوس کن ہے۔