بلوچستان خواتین پر تشدد میں اضافہ،46خواتین قتل 3 کی خودکشی

  رپورٹ: عبدالکریم
رواں  ہفتے  قلعہ سیف اللہ میں بھائی نے  جرگے میں بہن پر فائرنگ کرکے قتل کردیا۔یہ واقعہ  جرگہ سسٹم کی تاریخ میں پہلا واقعہ تھا۔ لیکن خواتین پر ہونے والے  تشدد کا پہلا اور  آخری واقعہ  نہیں  ہے۔ بلوچستان میں  خواتین  پر ہونے  والی  تشدد کے واقعات  رپورٹ ہوتے  رہیں ہے۔  لیکن  رواں سال اس میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ۔
عورت فاونڈیشن  بلوچستان کے اعداد  و شمار کے مطابق  جنوری سے لیکر ستمبر تک   خواتین پر تشدد کے 69واقعات  رپورٹ ہوئے ہیں  جن میں 24 قتل  22 عزت کے نام پر قتل،خودکشی کے 3 اغوا  کے 3،گھریلو تشدد 8، اور اجتماعی زیادتی کے 6واقعات رپورٹ ہوئے  ہیں۔ قتل ہونی والی خواتین میں اکثر یت گھریلو تشدد کی نشانہ بنی ہے۔
قتل کے سب  سے زیادہ واقعات  کوئٹہ 10اور نصیرآباد میں 5 درج ہوئے  جبکہ  قلعہ عبداللہ، جعفرآباد،خضدار،قلات،قلعہ سیف اللہ، لسبیلہ،تربت  اور کوہلو میں ایک ایک  واقعہ رپورٹ ہوا ہے۔
غیرت کے نام پر   قتل  کے  زیادہ و اقعات نصیرآباد میں 8  جعفرآباد میں 4  جبکہ کوئٹہ، پشین،جھل مگسی،کچھی اور مستونگ میں  دو دو واقعے پیش آئیں ہے۔
ہما فولادی  عورتوں کی حقوق  کی تحفظ کیلئے کام کرتی ہے  اور  رائٹس  ریسرچ  فاونڈیشن  کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر بھی ہے وہ سمجھتی  ہیں  کہ  خواتین  پر تشدد  کے واقعات  میں نہ  صرف بلوچستان میں بلکہ کورنا وائرس  کی وجہ سے  دنیا بھر میں  اضافہ  ہوا ہے۔
ہما فولادی کی بقول: پہلے  بھی  خواتین پر تشدد کے واقعات زیادہ تھے لیکن اس  وقت رپورٹ کم ہوتے تھے۔ لیکن اب  یہ واقعات رپورٹ  ہورہے  ہیں۔ ان  کی مطابق  خواتین پر گھروں  میں ہونے والی تشدد کو  تشدد ہی نہیں مانتے۔ یہی وجہ  ہے کہ گھریلو تشدد کے واقعات بہت کم رپورٹ ہوتے ہیں۔
ہمافولادی  کے مطابق:  سزا ء اور جزا  میں تاخیر بھی  تشدد  میں اضافے کی سبب ہے۔ اگرانصاف  کی فراہمی فوری  طور پر ہوں  تو  ممکن  ہے کہ  خواتین پر  ہونے والی تشدد میں کمی  رنما ہو۔ لیکن  بدقسمتی سے  ہمارا  ہاں  عدالتی معاملات کو طول دیا جاتا ہے  جس کی وجہ سے کیسز میں اضافہ ہورہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
1 of 8,950

ہما فولادی  پدرشاہی نظام کو  بھی خواتین  پر ہونے والی تشدد  کا ذمہ دار  ٹھہراتی ہے ۔ ان کی مطابق اس نظام کی وجہ سے  مرد  اور عورت میں طاقتور اور کمزور کا  رشتہ قائم ہے ۔وہ سمجھتی ہے کہ  ایک بہتر اور انصاف پر مبنی معاشرے کی قیام کیلئے  ہم نے ملکر پدرشاہی نظام کی خاتمے کیلئے لڑنا ہوگا۔
یاد رہے بلوچستان میں  گھریلو تشدد کا بل تین سال قبل  پاس  ہوا ہے لیکن  اس بل کے رول بزنس ابھی تک  نہیں بننے   ۔ اور  اسی طرح  بلوچستان میں  صوبائی کمیشن  برائے خواتین  تاحال نہیں  بنی  ہے جبکہ دیگر صوبوں  میں اس کا قیام عمل لایا  جاچکا ہے۔
علاوالدین خلجی  عورت فاونڈیشن  بلوچستان  کا  ریذیڈنٹ ایڈیٹر ہے  وہ قانون  کی نفاذ اور  اس   پر عمل درآمد میں  تاخیر  کو  خواتین پر تشدد  پر اضافے کی ذمہ دار گردانتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں  خواتین پر تشدد کے روک تھا کیلئے  ضروری ہے  کہ  قانون  پر عمل درآمد ہر سطح پر ممکن بنایا جائے۔ان  کے مطابق بلوچستان میں انسداد ہراسیت  برائے خواتین  کے نام سے  ایک محکمہ بھی کام کررہی ہے  اور  اس محکمے میں  خاتون محتسب  کی تعیناتی بھی  گزشتہ سال  عمل لائی گئی ۔ لیکن  خاتون محتسب  کو  کسی واقعے  پر بھی  سوموٹو  لینا کا اختیار نہیں ہے۔
علاوالدین خلجی کے  مطابق:  امسال  کاروکاری  اور سیاہ کاری کے واقعات میں کمی واقع ہوئی۔ لیکن گھریلو تشدد میں  اضافہ ہوا ہے۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے علاوالدین  خلجی کا کہنا تھا کہ  کورنا وائرس اور لاک ڈاون  کی وجہ سے  زیادہ تر وقت لوگ گھر پر گزارتے تھے۔لوگوں  کی معاشی مسائل بڑے  جس کی وجہ سے گھریلو تشدد میں اضافہ ہوا  اور  خواتین کی جتنے بھی  قتل ہوئے  ہیں ان میں گھریلو  تشدد  کا عنصر نمایا تھا۔
یاد رہے بلوچستان میں خواتین پر تشدد کے واقعات مذکورہ تعداد سے کہی زیادہ قبائلی علاقہ ہونے کی وجہ سے بلوچستان میں خواتین پر ہونے والے تشدد کے واقعات رپورٹ نہیں ہوتے ۔
You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.