رپورٹ: عبدالکریم، جمیل کاکڑ
بلوچستان کے سرکاری ہسپتال ادویات کی کمی ایک دیرینہ مسئلہ ہے۔ جس کی وجہ سےسرکاری ہسپتالوں میں علاج معالجے کے لیےآنیوالے مریضوں کو شدید مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔
صوبہ کے بیشتر ہسپتالوں میں ریبیز کے انجکشن بھی ناپید ہیں۔
ادویات کی فراہمی کے لیے محکمہ صحت کے ادارے ایم ایس ڈی کے حکام کے مطابق وہ سرکاری ہسپتالوں کو ادویات کی فراہمی کے لیے تمام وسائل بروئے کار لارہے ہیں۔
اس حوالے سے بلوچستان 24 ڈاٹ کام سے گفتگو کرتے ہوئے انچارج ایم ایس ڈی ڈاکٹر فہیم آفریدی کا کہنا تھا کہ ایم ایس ڈی میں ادویات کے جو خریداری ہوتی ہے وہ بلوچستان کا سب پیچیدہ عمل ہے۔
ان کے مطابق تین ہزار آئٹمز جن میں ادویات، انجکشن اور گولیاں شامل ہے۔
ان کو یکجا کرنا اور پر تمام کمپینیوں کو بلانا ایک مشکل مرحلہ اور طریقہ کار ہے۔ اس تمام مرحلے میں چھ مہینے تک لگ جاتے ہیں۔
لیکن اس کے باوجود ہم کوشش کرتے ہیں کہ بلوچستان کے تمام اضلاع کو ادویات فراہم کرسکے۔
ڈاکٹر فہیم آفریدی کے بقول: ادویات کے خریداری کے اس عمل کو آسان اور بد عنوانی سے بچنے کے لئے ہم کوشش کر رہے ہیں کہ ہمارے آنے والا ٹینڈر آن لائن ہواور تمام کمپنیاں آن لائن اپلائی کرسکیں۔
ان کے مطابق جب سے ان کی تعیناتی ایم ایس ڈی میں ہوئی ہے۔ وہ نظام میں تبدیلی لانے کے لئے بڑی کوششیں کر رہے ہیں۔
ان کامزید کہنا تھا کہ ادویات کی بہتر نگرانی کے لئے بہتر سافٹ وئیر بنا رہے ہیں۔ جس سے آسانی سے معلوم ہوگا کہ کونسی ادویات کب آئی اور کب تک قابل استعمال رہے گی۔
اب ہم روایتی نظام سے نکل کر ڈیجیٹیلائزشن کی طرف جارہے ہیں۔
یاد رہے کہ بلوچستان میڈیکل اسٹور ڈپو میں چالیس کروڑ روپوں کی کرپشن کا کیس بھی سامنے آیاہے۔
نیب کے اعلامیہ کے مطابق سابق ایڈیشنل ڈائریکٹر سمیت دو اہلکار گرفتار ہوچکے ہین اور ان کو جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے کر دیا گیا ہے۔
ان پر الزام ہے کہ انہوں نے ریبیز انجکشن کی خریداری کے مد میں پیسے ایڈوانس میں لیے تھے۔ جبکہ انجکشن کی فراہمی صرف کاغذات تک محدود رہی۔
ایم ایس ڈی میں کرپشن کے حوالے سے ڈاکٹر فہیم آفریدی کا کہنا تھا کہ محکمہ صحت ایک حساس محکمہ ہے۔اور یہ سب کی نظروں میں ہے۔
یہاں کوئی چھوٹا مسئلہ ہو یا بڑا اس محکمے کے متعلق خبروں میں عوام زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔
ڈاکٹر فہیم آفریدی کے مطابق ایم ایس ڈی میں جو کچھ ہوا اس کی تحقیقات ہورہی ہے جو بھی حقائق ہوں وہ عوام کے سامنے آجائینگی۔