ہمارے مذہب میں طلاق کا کوئی تصور ہی نہیں۔۔۔۔۔!

رپورٹ مرتضیٰ زہری

کوئٹہ میں مسیحی برادری کے مذہبی رہنما پاسٹر آصف جون نے کہا ہے کہ حکومت نے گزشتہ دنوں وفاقی کابینہ میں کرسچن میرج اور طلاق بل کابینہ نے منظور کرلی ہے جو کہ مسیحی مذہبی تعلیمات سے متصادم ہے۔

انکے مطابق ”ہمارے مسیحی برادری میں نکاح کے لیے گواہ کے طور پر دو پاسٹر کا ہونا ضروری ہے اور اس بل کے اندر کہا گیا ہے کہ ان دو گواہوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے“۔

بلوچستا ن 24سے خصوصی بات چیت کے دوران انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت سے اپیل کے کہ مسیحی یا کسی بھی مذہب کے ساتھ اگر کوئی بل متصاد م ہے تو ان کے نفاذ کی کوئی ضرورت نہیں ہے حکومت اگر ایسی کوئی بھی قانون بنانا چاہتی ہے تو اس سے قبل مسیحی مذہبی رہنماؤں سے مشورہ ضرور کریں جیسے کہ اگر کوئی بھی اسلامی بل پاس کیا جاتا ہے تو پہلے اسلامی نظریاتی کونسل اس کی منظوری دیتی ہے اس کے بعد ہی اس بل کو حکومت منظور کرسکتا ہے۔

ان کے بقول: اس بل کے حوالے سے ہمارے سب سے زیادہ تحفظات بھی اسی بات پر ہیں کہ حکومت نے بل لانے سے پہلے مسیحی اکابرین اور مذہبی رہنماوں سے مشاورت کرنے کی جرت ہی نہیں کی بلکہ اس بل کی تیاری میں ایسے این جی اوز سے مشاورت کی گئی جو کہ معربی ایجنڈے کے تحت یہاں پر مسیحی معاشرے کو سیکولرایزم کے جانب دھکیل رہے ہیں۔

اس معاملے پر پاکستان بھر میں مسیحی برادری میں تشوش پائی جاتی ہے جس کا ثبوت یہ احتجاجی مظاہرہ اور سوشل میڈیا پر عوام کو غم و غصہ ہے۔ ہم وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم اور دیگر حکومتی عہدیداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ جب اس بل قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے تو اس سے قبل ہمارے تحفظات دور کئے جائیں۔

یہ بھی پڑھیں
1 of 8,950

انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ میں موجود بعض مسیحی لیڈز ان ہی این جی اوز کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں اور کئی ایک کی اپنی این جی اوز بھی ہیں یہ لوگ ویسٹرن قوانین کو یہاں نفاذ کرنا چاہتے ہیں جس کا مقصد یہاں ہم جنس پرستی کا عام کرنا ہے پاکستان میں ایسی رویات نہیں ہیں اور مسیحی برادری بھی ایسی رویات کو یہاں عام کرنے نہیں دینگے۔

ان کے مطابق: اگر حکومت ہماری مذہبی احساسات، جذبات اور نکاح کے مذہبی تقد س روند کر بل منظور کریگی تو ہمارے پاس احتجاج کے علاوہ اور کوئی چار ہ نہیں رہے گا۔

اس سلسلے میں چیئرمین انٹر فیتھ ہارمنی پاکستان شہزاد کندن نے بلوچستان 24سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت مسیحی برادری کو حقوق دینے کے لیے کوئی بل لا بھی رہی ہے تو سب سے پہلے مسیحی مذہبی رہنماوں سے مشاورت ضروری ہے۔

ان کے بقول ”ہمارے مذہب میں طلاق کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ ہمارے بائبل مقدس میں لکھا ہے کہ جس کو خدا نے جھوڑ دیا ہے اس کو کوئی الگ نہیں کرسکتا“۔

مظاہرین نے مطالبہ کیا ہے اگر حکومت 1872کے بل میں کوئی ترمیم کرنا بھی چاہتی ہے تو مذہبی رہنماوں سے مشاورت کرنا ضروری ہے۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.