تحریر : حفیظ اللہ یاد
ادب تنقید حیات کا نام ہے اور زندگی کے مختلف شعبوں کے حالات و واقعات کے مشاہدوں سے وجود میں آتا ہے۔ادب دراصل انسانی معاشرے کا ترجمان ہوتا ہے اور کوہی بھی ادیب جس عصر میں جی رہا ہوتا ہے اس کی تحریر ضرور اسی دور اور معاشرے سے متاثر نظر آتا ہے. ادب بنیادی طور پر اس اجالے کے مانند ہوتا ہے جو اندھیرے اور تاریک راتوں میں نمودار ہوتی ہے. ادب فرد اور سماج دونوں کیلیے وہ تربیت گاہ ہے جو محسوس اور غیر محسوس انداز میں ضرور انسان کو بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے. کسی محکوم اور زیر دست طبقے یا قوم کیلئے ادب ، سیاست اور صحافت کے ساتھ مل کر اسی قوم یا طبقے کو غلامی سے نجات دلاتا ہے۔دراصل ادب زندگی میں نئے معنی تلاش کرنے کا نام ہے اور اسی لئے ادب زندگی کے شعور ہی کا مفہوم ہے. اسی شعور کے ذریعے ھم ارتقا سے گذر کر تبدیل ہوتے ہیں ،ھم وہ نہیں رہتے جو اس وقت ہیں اور اسی سے ہمارے اندر قوت عمل پیدا ہوتی ہے.
برصغیر برطانوی ہند کے اندھیر، خاموش، سنسان اور غلام راتوں میں ۷ جولائی ۱۹۰۷ کو برٹش بلوچستان میں عبدالصمد خان اچکزئی شور و غوغا کے ساتھ آزادی کی امید لیئے عالم ارواح سے عالم حال میں تشریف لاتے ہیں. بلاشبہ خان عبدالصمد خان المعروف خان شہید بیک وقت ایک اچھے سیاست دان کے ساتھ ساتھ ایک اچھے ادیب، انسانی حقوق کے ترجمان، مترجم، صحافی ( جن کو بلوچستان کے بابائے صحافت کا خطاب ملا ) ، تحریک آزادی کا کا رکن بھی تھے. آج ہم اس کرشمہ ساز باکمال انسان کی فقط ادبی خدمات پر ہی بات کرینگے.
خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی نے غیر سیاسی پشتون اور دیگر محکوم اقوام میں سیاسی شعور پیدا کرنے کیلئے دن رات محنت کی مگر بدبختانہ موصوف کی یہ محنت وقت کے جابر حکمرانوں سے ہضم نہ ہوسکا اور خان شہید کے زندگی کے سنگیں اور پرقوت لمحوں کو کالے سلاخوں کے پیچھے دکھیل دیا گیا تاکہ ان کی جابرانہ اور پراستبداد استعماریت کیلئے قومی قوت مدافعت پیدا نہ ہو. تو ایسے حالات میں بھی خان شہید کے مظلوم اور نازک انگلیوں آخری امید قلم نہیں گرا اور خطے کے غلام و محکوم اقوام کے دماغوں پر شعور اور غیرت کے دستک دیتے رہے.
بابائے پشتون خان عبدالصمد خان وہ ملاح تھے جس نے اپنی ڈگھمگاتی کشتی میں سیاسی، صحافتی جدوجہد کے ساتھ ساتھ ادبی جدوجہد اور جدید لسانیات میں بے تحاشا خدمات سراجام دیۓ. پشتو زبان کے جدید لسانیات میں بھی موصوف کے خدمات ناقابل فراموش ہیں. آپ کے مطابق کسی بھی زبان کے رسم الخط اور آواز( پروناونسیئیشن ) میں تعلق ہونا چاہیے یعنی جو الفاظ جیسے بولے جاتے ہیں ویسے ہی لکھنے چاہیے. اسی نظریے کے بنیاد پر خان شہید نے پشتو زبان میں رسم الخط متعرف کروایا اور پھر اسی نظریے کو جون ۱۹۵۶ ء میں ایک کتابچے کی شکل میں شائع کیا جو بعد میں ۱۹۹۱ ء اور ۲۰۰۷ ء میں بھی شائع ہوئی.
بابائے پشتون نے پشتو زبان کو خالص بنانے کیلئے بھی بسیار کام کیا اور آپ کے مطابق پشتو زبان سے عربی زبان کے وہ حروف بھی نکالنے چاہیے جوکہ جبرا پشتو زبان میں شامل کردیۓ گۓ ہیں. ان حروف میں ( ث، ح، ذ، ص، ض، ط، ظ، ع، ف، ق ) شامل ہیں. کیونکہ یہ اصوات ( آوازیں) عربی زبان ہی کے اصوات ہیں اور کوئی پشتون ان آوازوں کی درست آدائیگی نہیں کرسکتا بلکہ ان آوازوں سے ملتے جلتے پشتو زبان ہی کے مخرج استعمال کرتے ہیں. مثال کے طور پر ( ذ، ض، ظ ) کیلئے ( ز ) کا استعمال اور ( ح ) کیلئے ( ھ ) کا استعمال کرتے ہیں. کیونکہ دنیا میں وہی زبانیں سیکھے، لکھنے میں آسان اور وقت کے ساتھ چلنے کا لچک رکھتے ہیں جن کے حروف خالص اور کم ہوتے ہیں.
خان شہید نے پشتو زبان کے خالص، سچہ اور پرانے الفاظ کو بھی آب حیات پلائی اور موت کو ان الفاظ کے پاس آنے سے دور رکھتے ہوئے زندان کے سلاخوں پیچھے پشتو لغت لکھی جو بعد میں ” صمداللغات ” سے مشہور اور یاد ہونے لگی اور آج تک یاد کی جاتی ہے. اس ” صمداللغات ” میں پشتو زبان کے خالص اور قدیم الفاظ کو رہتی دنیا تک زندگی کے قید میں بند کر دئیے گئے ہیں۔
جیل ہی سے بیچلر کرنے والے اس عظیم باکمال ہستی نے کئی کتابیں لکھی اور کئی کتابوں کے مختلف زبانوں سے پشتو اور اردو میں تراجم کئے اور دنیا جہاں کے سانئسی، مذہبی، سماجی علوم کو اپنے ناخواندہ معاشرے کو اپنے ہی زبان میں پیش کردئیے. بابائے پشتون خان شہید کے قریبی ساتھی پروفیسر عبدالغنی خان غنو اپنے کتاب ” بابائے پشتون اور پشتونخوا ” کے دوسرے جلد میں لکھتے ہیں کہ خان شہید کو گئی زبانوں کا علم تھا جن مین پشتو، اردو، فارسی، انگلش، بلوچی، پنجابی، عربی، براہوی، بلوچی، گجراتی وغیرہ شامل ہیں جبکہ ۵ زبانوں پر تو آپکو عبور تھا جن میں پشتو، اردو، عربی، انگلش فارسی شامل ہیں. کیونکہ ظاہر سی بات ہے جب آپ ترجمہ کرتے ہیں اسکا پہلا شرط یہ ہوتا ہے کہ آپ کو دونوں زبانوں کے قائدے اور قوانین کا نہ صرف علم ہونا چاہیے بلکہ دونوں زبانوں پر عبور ہونا ضروری ہے.
عبدالصمد خان اچکزئی نے شیخ سعدی کی گلستان کا پشتو میں منظوم ترجمہ کیا جس کے پڑھنے سے پڑھنے والا کافی حد تک وہی احساسات و جذبات محسوس کرتا ہے جوکہ شاعری کے منظوم تراجم میں بہت کم یا آٹے میں نمک کے برابر ملتے ہیں. بابائے پشتون رسمی طور پر شاعر نہ تھے اور نہ ہی موصوف نے زندگی میں یہ اعتراف اور نہ ہی دعوہ کیا ہ میں شاعر ہوں مگر درحقیقت وہ ایک اچھے شاعر بھی تھے . آپ کے فارسی سے پشتو میں تراجم اشعار کا ایک جلک پیش خدمت ہے.
فارسی:
کم لزتم وقیمتم افرون ز شمار است
گوے ثمرے پیشتر از باغ وجودم
پشتو:
پہ خوند کم پہ بیہ ڈیر یم تر اندازہ
گوا تر وخت وڑاندی میوہ وم د پیدا
ایک اور شعر درج ذیل پیش کرنا چاہتا ہوں
فارسی:
خارہا کہ بردم ازیں راہ زیرپا
منت بر قدم راہ رواں است مرا
پشتو:
ڈیر ازغی می خپل پہ تہ پوری یوڑل
نور بھیر بہ زکہ لاندی وی تر پشو زما
اس کے علاوہ موصوف نے چارلٹ کارٹر اور ڈائس کارٹر کا کتاب ” فیچر آف فریڈم ” کو اردو میں ” آزادی کے افق ” کے نام سے ترجمہ کیا، مولانا شبلی نعمانی کے سیرت نبی کے پہلے جلد کا پشتو زبان میں ترجمہ کیا، امام غزالی کے کیمائے سعادت کا لشتو میں ترجمہ کیا وغیرہ۔
بابائے پشتون نے پشتو ادب کو ایک انوکھا تحفہ اپنی خودنوشت سوانح عمری ” زما ژوند او ژوندون ” کی شکل میں عطا فرمایا جو علمی، ادبی، ثقافتی، سیاسی، اور معاشرتی تاریخ کا ایک اہم منبع مانا اور جانا جاتا ہے. اس سوانح عمری کی ابتدا خان شہید نے ۲۱ جولائی ۱۹۵۹ کو ڈسٹرکٹ جیل ملتان میں کیا تھا. اس شاہکار آپ بیتی ” زما ژوند او ژوندون ” کا پروفیسر عبدالغنی خان غنو نے اردو میں اور سابق گورنر بلوچستان فرزند خان شہید محمد خان اچکزئی نے انگلش میں ترجمہ کیا جوکہ جلد شائع ہوجائیگی.
زما ژوند او ژوندون بابائے پشتون کی ادیبانہ پختگی اور عالمانہ انداز کا ایک واضح ثبوت ہے جس میں موصوف نے جو اسلوب اپنایا ہے وہ انتہائی سادہ، مدلل اور پروقار ہے. خان شہید نے اپنے معاشرے میں جو کچھ پڑھا، دیکھا، سنا، اور لرکھا اسے بلا جھجک لکھ ڈالا اور اپنے مشاہدات، تاثرات اور تجربات کو تمام تر فرسودہ روایات کو پس پشت ڈالتے ہوئے نہایت انصاف کے ساتھ بیان کیا.
اس خودنوشت میں بیسوی صدی کے پہلے چھ دہائیوں کے دوران خطے اور معاشرے کے سیاسی، مذہبی، ادبی، ثقافتی اور مختلف علوم کے بھرپور حوالے ملتے ہیں جس میں پیدائش، قبیلہ، خاندان گرانہ، پشتو پڑھنا سیکھنا، تعلیم، افغانستان کی جنگ آزادی، انسانوں کا مذہب کے ساتھ ربط و تعلق، پشتونوں کی فکری عکاسی، معاشرتی برائی، پیرومرشد، خشک سالی، شکار، آزادی، موسیقی، جنات کا امتحان، حب الوطنی، شادی، قید و بند، شال بلوچستان، سفر ہندوستان، گاندھی جی سے پہلی ملاقات، باچا سے ملاقات، جناح کی ملاقات، ابوالکلام آزاد کی شاگردی، جرگہ، دھمکیاں، بھوک ہڑتال وغیرہ جیسے مضامین بڑے دلیرانہ انداز میں موجود ہیں.
آخر کار ۲ دسمبر ۱۹۷۳ ء کو اس فرشتہ صفت انسان سے اسکی زندگی بڑی بے دردی سے چھین لی گئی اور اس خطے کے محکوم اقوام کے اس عظیم ترجمان کو چھیاسٹھ سال کے عمر میں اپنے ہی خون سے لہولہان کرکہ عالم حال سے عالم برزخ پہنچایا اور جسمانی طور ہم سے بہت دور چل بسے لیکن اپنے افکار و نظریات کی ایک دنیا ہمارے لئے چھوڑ دی اور جب کوئی نظریاتی دوست اپنے حصے کا کام مکمل کر کہ جاتا ہے وہ دل کو سکون ملتا ہے.