گلگت بلتستان خواتین کاانتخابی عمل میں تاریخی فتح

تحریر:شیرین کریم
گلگت بلتستان کی تاریخ میں پہلی بار خواتین کی بڑی تعداد نے الیکشن میں حصہ لیا چاہے وہ جنرل الیکشن ہو یا ٹیکنوکریٹس کی مخصوص نشستوں کے لیے ہو خواتین نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اسی طرح خواتین کی ایک بڑی تعداد نے جلسوں میں بھی شرکت کیا اور خواتین نے الگ الکشن کمپین آفس بھی کھول کر اپنے پارٹی کو سپورٹ کرتے نظر آئی اسی کے ساتھ ساتھ اگر دیکھا جائے تو الیکشن کے دن بھی گلگت بلتستان میں خواتین کی ایک بڑی تعداد نے اپنا ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے گھروں سے بھی نکلی ووٹ کاسٹ کیا آپ اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔اور اپنی مرضی سے اپنے پسندیدہ امیدوار کو ووٹ کاسٹ بھی کیا ،الکشن کے دوران میری ملاقات کئی خواتین سے ہوئی جن سے میں نے پوچھا کہ آپ ووٹ کس کو دی رہی اور کیوں ؟یقینا ان کا جواب بھی بہت گہرا تھا گلگت بلتستان کی خواتین ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کیلئے پر عزم تھی خواتین اپنے بنیادی حقوق کیلے بھی اپنا ووٹ کاسٹ کررہی تھی امیدواروں سے اس امید پر ووٹ کاسٹ کررہی تھی کہ وہ علاقے کے مسائل اور خواتین کے مسائل حل کرے گی۔
گلگت بلتستان کی خواتین کے مسائل بے پناہ ہیں گلگت بلتستان کو اللہ تعالیٰ نے تمام نعمتوں سے نوازا ہے مگر گلگت بلتستان کے عوام تمام بنیادی حقوق،سہولیات سے بھی محروم ہیں۔بہتے دریا ،جھیلیں تو اللہ تعالیٰ نے گلگت بلتستان کو نوازا ہے عوام کو پینے کیلئے صاف پانی نہیں ،ان دریاؤں کے پانی کو ذخیرہ کرکے بجلی پیدا کی جاسکتی ہے مگر یہاں کے عوام 24 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کا عزاب بھی جھیل رہے ،سردیوں میں تو کئی کئی دن بجلی غائب عوام سخت سردیوں میں اندھیرے میں رہنے پر مجبور ہیں، ہسپتالوں میں سہولیات نہیں ،روڈ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں،ایرجنسی میں مریض کو ہسپتال پہنچاتے مریض راستے میں ہی دم توڑتا ہے۔گلگت شہر اور اسکردو کے علاؤہ کہیں بھی گائناکالوجسٹ موجود نہیں۔
اگر مسائل کا تذکرہ کرے تو شائد مسائل ختم ہونے کا نام ہی نہ لیں۔
ان تمام مسائل کے باوجود الیکشن 2020 میں خواتین نے الیکشن میں حصہ لیا اور گھروں سے نکل کر ووٹ کاسٹ بھی کرلیا،
یادرہے کہ گلگت بلتستان کے جنرل سیٹوں پر بھی چار خواتین الیکشن لڑ رہی تھی جن میں سے پاکستان پیپلز کی سکریٹری اطلاعات سعدیہ دانش  داریل سے الیکشن لڑ رہی تھی  ایک ایسے حلقے سے جہاں پر خواتین کو ووٹ دینے کی اجازت نہیں اور خواتین کا شناختی کارڈ بھی نہیں بنایا گیا ہے۔لیکن اسکے باوجود وہ پر امید تھی جیت کیلیے تو نہیں مگر ان خواتین کیلئے جو گھروں میں ہیں اور مسائل سے دوچار ہیں ان کے مسائل انکے گھروں کی دہلیز تک پہنچانے کیلیے پر امید تھی ۔وہ ان خواتین کیلئے دل سے کام کرنے کیلئے پر امید تھی۔
اسی طرح غزر سے گلگت بلتستان کی بیٹی شہناز بٹھو بھی الکشن کے دنوں میں گھر گھر جا کر کمپین کرتی نظر آئی اور خواتین کو ترقی کی راہ پر گامزن دیکھنا چاہتی تھیں اور خواتین کے خواب پورا کرنے کیلئے پر عزم نظر آئی ۔
پاکستان تحریک انصاف کی امیدوار آمنہ انصاری بھی سکردو سےاس الیکشن کے دنگل میں مردوں کے شانہ بشانہ نکلی اور کام کیا اور انہوں نے مردوں کو بھی بڑا ٹف ٹائم دیا ۔مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی رہی اور الیکشن کمیشن میں پیش پیش نظر آتی رہی۔
اسی طرح مجلس وحدت المسلمین کی امیدوار بھی میدان میں تھی اور ہنزہ سے ایکشن لڑ رہی تھی لیکن آخر وقت میں وہ پاکستان پیپلز کے امیدوار کے حق میں دستبردار ہو گئ۔
اسی طرح ٹیکنوکریٹس کی سیٹوں اور خواتین کی الگ مختص سیٹوں کے لئے بھی خواتین امیدواروں کی ایک بڑی تعداد نے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرائی۔
گلگت بلتستان کی خواتین باشعور ہیں ہر میدان میں چاہے تعلیم،صحت،کھیل ،سیاست میں بھی آگے آرہی ہیں اور گلگت بلتستان کی خواتین نہ صرف قومی سطح پر بلکہ عالمی سطح پر بھی اپنا اور علاقے کا نام روش کردیا ہے ،گلگت بلتستان کی سیاسی خواتین نہ صرف اپنی زات کی ترقی بلکہ علاقے کی خواتین کی ترقی کے لئے پر عزم ہیں.

یہ بھی پڑھیں
1 of 8,950
You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.