قبائلی علاقوں میں غیرت کے نام پرخواتین کا قتل، بغیر جنازےکی تدفین

تحریر: ممانڑہ آفریدی
رواں سال خیبرپختونخوا کے ضم شدہ ضلع جمرود کے علاقے کرن خیل میں رنگ روڈ پر ایک لڑکی اور لڑکے کو غیرت کے نام پر قتل کردیا گیا تھا اور قتل کرنے کے بعد معاشرے میں بدنامی کے خوف سے لڑکی کے اہل خانہ نے جنازہ پڑھائے بغیر ہی لڑکی کو دفن کردیا تھا۔

غیرت کے نام پر قتل کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ قبائلی اضلاع میں اس غیرت کے نام پر خواتین کے قتل کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے تاہم قبائلی روایات اور معاشرے میں بدنامی کے خوف سے ایسے واقعات رپورٹ ہونا تو دور کی بات ایسے مقتولین کا جنازہ بھی نہیں پڑھایا جاتا۔ جس کی وجہ سے یہ واقعات میڈیا اور انسانی حقوق کےلئے کام کرنے والی تنظمیوں کی نظروں سے اوجھل ہیں۔
تنظم  برائے  انسانی حقوق  پاکستان  کے معلومات  کے مطابق  سال 2019  صوبہ خیبر پختونخوا میں  غیرت کے نام  پر قتل  کے 95 واقعات درج ہوئے۔ تاہم تنظیم کے پاس ضم شدہ قبائلی اضلاع یعنی سابقہ فاٹا میں غیرت کے نام پر قتل کے واقعات کے اعدادوشمار موجود نہیں ہیں۔

میڈیا رپورٹس اور مقامی ذرائع کے مطابق گزشتہ سال  ضلع خیبر  میں  11غیرت کے نام پر  قتل ہوئے  ہیں ان میں  سے جمرود5میں  لواڑگی 3اور  علی مسجدکے علاقے میں بھی 3 واقعات  پیش  آئے  ہیں ،لیکن   واقعات  اس زیادہ ہے وہ  مختلف وجوہات پر نہ تو پولیس میں  اور نہ  میڈیا میں  رپورٹ  ہوسکیں  اور لواحقین  غیرت  اور بدنامی کی وجہ سے خاموش ہے۔
دوسری طرف  عورت فاونڈیشن کی  ایک  رپورٹ  کے مطابق  خیبرپختونخوا  میں  2019میں  خواتین کے قتل کے واقعات میں 9 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
1 of 8,950

غیرت کے نام پر قتل کی واقعات موجود  اعداد  و  شمار   سے کئی گنا زیادہ  ہے  لیکن  قتل ہونے والی خاتون کی لواحقین  غیرت،عزت اور  بدنامی  کی خاطر  قتل کو  خودکشی  یا  طبی  موت گرداننے  کی باعث یہ واقعات کم  رپورٹ ہوتے ہیں  جس کی وجہ سے  ان واقعات کو  قبائلی معاشرے میں خاموش  حمایت حاصل  رہی ہے ۔

8دسمبر2004کو بین لاقوامی اور  داخلی دباو  کے باعث  حکومت پاکستان  غیرت کے نام پر قتل  کے روک تھام کیلئے ایک  قانون  بنایا۔ جس کے تحت  قاتل  کو سات سال  قید اور کچھ کیسز میں  سزائے موت  رکھی گئی ۔لیکن اس قانون میں  گنجائش باقی رہ گئی  تھی  جس کی وجہ سے  یہ قانون التواء کا شکار رہا۔اس  کے بعد 2016میں  اس قانون کو  متفقہ طور پر قومی اسمبلی اور سینٹ نے پاس کیا، جس کے بعد  یہ جج کے صوابدید  پر ہے کہ وہ  قاتل کو قید کی سزاء دے یا سزائے موت۔
قبائلی علاقوں میں چونکہ  کیسز رپورٹ نہیں ہوتے  اس لیے  قاتل  قانون  کی گرفت میں نہیں آتا اور  وہ آزاد گھومتا رہتا ہے۔

ضلع خیبر کے علاقے لنڈی کوتل کے مکین سید عالم نے 7جنوری 2016ء کو ہیومن رائٹس کمیشن کو دی گئی ایک درخواست میں موقف اختیار کیا تھا کہ ان کا اپنے بھائیوں کے ساتھ مشترکہ کاروبار تھا۔ کاروبار میں اختلافات پر ان کے بھائیوں نے ان کی بیوی اور ماموں پر ناجائز تعلقات کا الزام لگا کر قتل کردیا تھا۔ جبکہ درخواست دینے کے باوجود اس وقت کی پولیٹیکل انتظامیہ نے ملزمان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی۔
سید عالم کی درخواست کو چار سال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود تاحال نہ کوئی مقدمہ درج ہوا اور نہ ہی ان ملزمان کے خلاف کوئی کاروائی عمل میں لائی گئی۔
ایک انسان دوسرے انسان کے قتل کا حق نہیں رکھتے ۔ ہر وہ قتل  جس کا  تعلق  انسانوں  کی فطری  عمل  سے تعلق نہ ہو  اور  وہ  روایات، رسم  ورواج  کے قوانین  جو کہ  انسانوں  نے اپنی مرضی  کے تحت  بنائیں ہے۔ ان  قوانین  کے تحت  ہونے والے  قتل غیر انسانی  عمل ہے۔
مذکورہ روایات کے  شکار ہمارے  قبائلی معاشرے میں سب سے زیادہ خواتین  رہی ہیں۔اور ان کو غیرت کے نام پر قتل کیا جاتا رہا ہے، اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ اب اس بات کا یہ  مطلب  نہیں ہے  کہ رسم ورواج کے تحت بننے والے   قوانین کو  نہیں توڑا جاسکیں ۔
موجودہ دور کی بنسبت  ماضی میں  قبائلی معاشرے  میں  خواتین  کو  غیرت  کے نام پر زیادہ قتل  کیجاتی تھیں ۔ اس کی بنیادی وجہ  خواتین کو بطور جنس  عورت ہم قبول نہیں کرتے  ہے۔

یہ بات غلط نہیں ہوگئی  کہ خیبرپختونخوا میں آنے والے کسی بھی  وباء میں اتنے لوگ نہیں  مرے  ہے  جتنی خواتین  غیرت کے نام  پر قتل ہوئی ہے۔  ہر سال  کئی سو خواتین غیرت کے نام پر قتل ہوتی  ہے  اور یہ اعداد و شمار وہ ہے  جو اخبارات میں  رپورٹ ہوئے  ہیں  اصل تعداد اس سے کہی گناہ زیادہ ہے۔
پشتون  دیہی علاقوں میں  خاص کر  سابقہ فاٹا  میں  محض الزام  لگنے کی صورت میں  خواتین کو  غیرت کے نام پر موت کی گھاٹ اتار دی جاتی ہے ۔ اور اس کے بعد  ان واقعات کی اصل وجوہات کو مسخ کرنے کیلئے  اسے خودکشی  یا طبعی موت  کا نام دیا جاتا ہے۔
افسوس کن امر یہ ہے کہ  مذکورہ  علاقوں  کے صحافیوں  کے درمیان ایک  غیر تحریری معاہدہ  طے  ہوا ہے کہ  غیرت کے نام پر قتل  کے  کسی واقعے کو رپورٹ  نہیں کریں گئے۔ اس وجہ سے  اکثر کیسز سامنے نہیں آتے۔
غیرت کے نام پر قتل کے روک تھام کے  معاملے میں ریاست بنیادی اور اہم کردار ادا کرسکتا ہے  اور  اس کے روک تھام کیلئے ریاست نے 2016میں  اہم قانون پاس کیا۔ اگر اس قانون پر  عمل درآمد یقینی  بنائی  جائے  تو  واقعات میں کمی آسکتی ہے۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.