لاک ڈاون ، گڈ گورننس اور مزدور پیشہ افراد کے شب و روز

نصیرآباد میں وفاق اور صوبائی احکامات کے تحت ملنے والی رعایت ندارد.


گستاخیاں/ولی محمد زہری
نصیرآباد میں کورونا وائرس کے باعث مزدور اور روزانہ اجرت کرنے والے افراد سب سے زیادہ متاثر ہوچکے ہیں لاک ڈاون کاسب سے زیادہ فائدہ صرف ملازمت پیشہ طبقہ کو ہوا ہے ان کوسرکاری تنخواہ تو تواتر سے مل رہی ہے تاہم روزانہ اجرت کرکے گھر کے چولہے جلانے والے مزدور, مستری,میکنک,بیکر ہوٹلوں اور دیگر تجارتی مراکز پر کام کرنے والے روزانہ اجرت کی بنیاد پر کام  کرنے والےافراد پرائیویٹ سکولز میں کام کرنے والےاساتذہ، چپراسی ہاکرز ودیگر روزانہ اجرت کرنے والے سفید پوش افراد کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں بہت سے فیس بک کے دانشور اور صاحب رائے لوگ لاک ڈاون کی حمایت کررہے ہیں اورکوروناسے بچاو کےلئے لاک ڈاون کی حمایت بھی وہی طبقہ کر رہا  ہے جنہیں سرکار کی جانب سے ماہانہ تواتر سے تنخواہ مل رہی ہےاور وہ سرکاری ڈیوٹی کے بجائے گھر میں بیٹھ کر دانشورانہ مشورہ دیکر صاحب الرائے  کاکردار ادا کر رہے ہیں کیا کسی نے روزانہ اجرت پر کام  کرنے والے مزدور کی حالت اور گھر میں اخراجات کی حقیقت معلوم کی ہے اسے معلوم ہے کہ جس نے دیہاڑی کرکےہی گھر چلانا ہوتا ہےاب تو ملک میں ایسی  بھی خبریں زیر گردش ہیں کہ شوہروں سے روٹی اور خرچہ طلب کرنے والی بیویوں کو شوہر طلاقیں اور بچوں کی  گردن میں رسی ڈال کر انہیں موت کی  آغوش میں بھیج رہے ہیں .
کیا لاک ڈاون کرنے سے نصیرآباد میں کسی بھی صاحب حیثیت نے سیلانی ٹرسٹ کی طرح دسترخوان لگا کر لوگوں کو کھانا کھلانے کی توفیق کی ہے کسی حکومتی آفیسر نے کسی غریب کو راشن دیا ہے تاہم رات کی تاریکی میں لوگوں کو انتظامیہ نے راشن دیکر اور تصاویر جاری کیئے لیکن ان لوگوں میں سے کتنے لوگ مزدور یاروزانہ اجرت پر کام  کرنے والے تھے کیا انتظامیہ نے جودوہزار کےقریب راشن تقسیم کئے کوئی بتا سکتا ہے کہ ان میں کتنے  خالصتا غریب دیہاڑی دار طبقہ کو ملا تاہم مجھے غالب یقین ہے کہ انتظامیہ نے لسٹیں دن کی روشنی میں بنائے اور راشن رات کی تاریکی میں دی تاہم جبکہ دوسری جانب دوماہ سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود کاروباری طبقہ کمرشل پلازے تجارتی مراکز پرائیویٹ سکولز بند ہیں ان میں کام کرنے والے مزدوروں کی کیا کیفیت ہوگی شہر میں میکنک مستریوں اور ان سے کام سیکھنے والے شاگردوں جوکہ اکثر کم عمری میں کام کرکے اپنے گھروں کے کفیل ہیں ان کے گھروں میں کیا بیت رہی ہو گی کیا سیلون بیکریوں پر کام کرنے والےمزدور کس حالت میں ہونگے تاہم بہت سے لوگ جو صاحب حیثیت ہیں وہی طبقہ لاک ڈاون کا کہہ کر حکومتی موقف کا حامی ہے لیکن مزدور طبقہ کے دل پر جو گزر رہی ہے وہ ان کو ہی معلوم ہے نصیرآباد میں سرکاری فنڈنگ کا حال یہ ہے کہ محکمہ صحت اور ایم ایس صاحب کو لاکھوں روپے کورونا وائرس کی مد میں ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکس کےلئے حفاظتی سامان خریدنے کےلئے ملے ہیں پیرا میڈیکس نے احتجاج کیا لیکن کچھ شنوائی نہیں ہوئی کل انہوں نے چندہ کرکے اپنی مدد آپ کے تحت حفاظتی سامان اور ماسک خرید کر صوبے میں کوئٹہ کے بعد دوسری مثال قائم کرکے عوام کی علاج ومعالجہ کے عظیم خدمت اور مشن کو جاری رکھنے کا عزم کیا ہے .
یہ بھی پڑھیں
1 of 8,950
جبکہ صحت کی  انتظامیہ کا ان سامان کے بارے میں کسی کو کچھ علم نہیں اس کا واضح مقصد پیرامیڈیکس کا اپنے جیب سے سامان خریدنا ایک بہترین نمونہ ہے گزشتہ ہفتے وفاق اور صوبوں میں مشترکہ طور پر طے پایا کہ تمام صوبے لاک ڈاون کے دوران کچھ نرمی کریں گے جہاں رش کم ہو گی ان کو اجازت دی جائے تاہم حکومتی سماجی دوری کےاصولوں کو ہر حال میں خاطر میں لایا لیکن نصیرآباد میں تاحال وفاق اور صوبوں کے درمیان رعایت ملنے والے شعبوں کو کوئی.اجازت نہیں دی گئی ہے جبکہ شنید میں آیا ہے کہ صوبے کے تمام ڈپٹی کمشنرز کو تین تین کروڑ روپے جاری ہو چکے ہیں لیکن آج تک ان پیسوں سے تاحال کسی ریڑھی بان مزدور میکنک پرائیویٹ سکول میں کام کرنے والے اساتذہ کرام کو کچھ بھی نہیں ملا ہے ممکن ہے کہ اس میں وقت لگے لیکن اس وقت تک ان غریبوں کی کیا کیفیت ہوگی ان کے گھروں میں فاقہ کی کیا پوزیشن ہو گی  لیکن سلام ہے نصیرآباد انتظامیہ کو جنہوں نے وفاق اور صوبے کی جانب کی ان طبقات کو ملنے والے رعایت کے احکامات ہوا میں اڑا دیئے ہیں کوئٹہ میں بھی ہوٹلوں کواس شرائط پر اجازت دی گئی ہے کہ وہ پارسل پر روٹی اور کھانے دے  سکتے ہیں لیکن انہیں بیٹھ کر کھانے اور رش کرنے کی اجازت نہیں نصیرآباد میں اب تک ایک بھی ہوٹل کو ان ایس او پیز کے تحت کھولنے کی اجازت تاحال نہیں دی گئی ہے مستریوں میکنک درزی و دیگر جن کو وفاق کی جانب سے اجازت ملنے کے باوجود پولیس ان کو کھولنے کی اجازت نہیں دے رہی ہے ضلعی انتظامیہ لاک ڈاون کرکے کیا مزدور طبقہ کو بھوک سے مارنا چاہتی ہے کیا انتظامیہ یہ بتا سکتا ہے کہ نصیرآباد میں کتنےمزدور ملز ہوٹل ورکشاپوں دکانوں شاپنگ سینٹر پر کام کر رہے ہیں کیا انہیں علم ہے کہ کتنے لوگ روزانہ محنت مزدوری کرتے ہیں میرے خیال میں انتظامیہ کے پاس اس طرح کی کوئی ڈیٹا نہ ہو گی لاک ڈاون ضرور کریں لیکن لوگوں کواجرت بھی دیں .
بےروزگار ہونے والوں کو میرٹ پر راشن بھی دیں انتظامیہ اس طرح کے اقدامات کرکے پورے ضلع میں کوئی بھوکا نہ ہو تو پھر لاک ڈاون کا فائدہ ہو سکتا ہے مجھے کامل یقین ہے کہ مرکز صوبے کی لاک ڈاون والی پالیسی سے لوگ کوروناسے ضرور بچیں گے لیکن بھوک اور افلاس سےکبھی بھی نہیں بچیں گے اس سلسلے میں انجمن تاجران اور شہری ایکشن کمیٹی کو بھی متحرک کردار ادا کرنا ہو گا اور تاجروں اور مزدور طبقات کا ترجمان بن کران کے روزگار کے محافظ ہونا ہوگا اس طرح سب ٹھیک کا نعرہ لگا کر نہ تو شہری مشکلات پرقابو پایاجاسکتا ہےاور نہ ہی تاجران کوریلیف مل سکتا ہے اب وقت آگیا ہے کہ انجمن تاجران بھی تاجروں کےحقوق کےلئے متحرک ہو اور لاک ڈاون جو مرکزاور صوبوں نے ریلیف دی ہے ان پر عمل کراکے لوگوں کو بھوک اور افلاس سے بچانے میں اپنا کردار ادا کریں اوران مشکلات میں کام کرنے والے ہی یقینا ہمہ وقت ان کام اور کردار ہمیشہ یاد رکھےجاتے ہیں اور تاریخ میں ان ایسے مثبت کردار اسا کرنے والے افراد کا نام بہترین صفحات کی زینت بن جاتے ہیں.
You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.