تحریر:فضل آشناء
بیسویں صدی کو انقلابوں کی ماں کہا جاتا ہے۔ اور انقلابات عظیم اشخاص کے فکری ، شعوری ،سیاسی اور مسلسل جدوجہد کے مرہون منت ہے ۔ اس عظیم سیاسی اور انقلابی ہستیوں میں ایک ہستی خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی ہے۔ بیسویں صدی کے پہلے دہائی یعنی 7 جولائی 1907 کو برٹش بلوچستان کے ( ضلع پشین) موجودہ ضلع قلعہ عبداللہ خان کے تحصیل گلستان کے ایک گاؤں عنایت اللہ کاریز میں پیدا ہوئے۔
خاندانی پس منظر: محمود خان اچکزئی ولد خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی ولد نور محمد خان ولد سلطام محمد خان ولد عنایت اللہ خان اچکزئی، ولد بوستان خان اچکزئی، ولد بر خور دارخان اچکزئی ہے۔ پشتنوکے تاریخی قبیلے اچکزئی کے زیلی شاخ حمیدزئی سے تعلق رکھتا ہے۔ عبدالروف بینوا (د افغانستان نومیالی) میں لکھتے ہیں کہ اچک نیکہ ( اچکزئی) نورالدین کا بیٹا اور بارک کا نواسہ ہے، بارک 740ھجری یعنی تقریبا 12 ویں صدی عیسوی میں زندہ تھا اور توبہ اچکزئی میں گزر بسر تھا۔ اچکزئی کے تین بیٹے تھے، گلجان (گوجن ) بہاوالدین (بادین) اور علی شیر ہے۔
مھراللہ خپلواک اپنی کتاب ( ملی مبارز غازی عبداللہ خان اچکزئی ) مٰیں کچھ اسطرح رقم طراز ہے کہ ، حمید زئی(حمید نیکہ) کے تین بیٹے جلے(جلیزئی)، مالے( مالیزئی)،اور درئی (دریزئی )پر مشتمل ہے۔ جلیزئی قبیلہ جنوبی پشتونخوا کے ضلع قلعہ عبداللہ خان مٰیں دیسورہ کاریز ، گلستان کاریز ،عنایت اللہ کاریز، توبہ اچکزئی، اور افغانستان کے صوبہ کندہار کے ضلع خاکریز اور صوبہ ہلمند میں اباد ہے۔ اس میں برخوردار کہول توبہ اچکزئی اور عنایت اللہ کاریز میں جبکہ عرض بیگی کہول گلستان کاریز اور دیسورہ کاریز قلعہ عبداللہ خان میں مقیم ہے۔ تاریخی طور پر برخوردار کہول اور عرض بیگی کہول ایک ہی خاندان ہے، خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی جلیزئی شاخ میں برخوردار کہول سے ہے، کیونکہ خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی اپنی سوانح عمری(زما ژوند وژوندون) میں لکھتے ہے کہ، عرض بیگ (شیردل خان اچکزئی) برخورودار خان اچکزئی کا بھتیجا ہے۔
خان شہید کے پہلی شادی سے پہلا بیٹا سیف الدین خان تھا جو پیدائش کے کچھ دن بعد انتقال کر گئے اس کے بعد ڈاکٹر احمد خان جو اب وفات پاچکے ہیں ، محمد خان اچکزئی جو گزشتہ دور اقتدار میں گورنر بلوچستان تھا، اور ایک بیٹی خور بی بی تھی۔ پہلی بیگم 1943 میں انتقال کر گئی۔ دوسری شادی سے محترم محمود خان اچکزئی پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کا سربراہ اور دوسرا ڈاکٹر حامدخان اچکزئی پشتون قامی سیاست کا ستارہ ہے ۔ خاندانی پس منظر یہاں تک اسلئے لازمی تھا، کہ تقریبا 300 سو سالہ قامی، وطنی ، اور لسانی خدمات میں مسلسل جد وجہد کا ادراک ہوجائے۔ صرف خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی کی خاندانی جد وجہد کا زکر لازمی ہے۔
معلوم تاریخ میں میروایس خان نیکہ کے ساتھ سیف اللہ خان اچکزئی ( کوکران )کے جرگے میں ارغسان اور توبہ اچکزئی کے نمائندہ کے طور پر شریک تھے، اور ایرانی سامراجیت کے کندہار گورنر گورگین کو قتل کرنے اور ازادی لینے والے جنگ میں شریک تھے۔
برخوردار خان اچکزئی عظیم امپراطور جدید گریٹرافغانستان کے بانی اور فاتح ہند احمد شاہ بابا کے ساتھ سپریم جنرل کے حثیت سے پانی پت کے دوسری لڑائی 1764 میں جنرل کمانڈر کے طور پر حصہ لیا ہے، اور اس لڑائی میں مرہٹوں کو شکست ہوئی ہے۔ خان شہید اس برخوردار کے نسب سے ہے۔
یہ بھی پڑھیں
شیر دل خان اچکزئی (عرض بیگ) جسے عرض بیگی مشتک ہے، برخوردار خان اچکزئی کا بھتیجا ہے، مہراللہ خپلواک صٰاحب عرض بیگ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ” احمد شاہ بابا کے دربار میٰں احمد شاہ بابا کا ذاتی مشیر اور عرض بیگ نام کے خطاب یافتہ ہے۔ احمد شاہ بابا کے عصر میں جنوبی پشتونخوا کا سردار بنایا ہے۔ جو اج بھی ان کے خاندان والے سرداری کے القابات استعمال کرتے ہیں۔
بوستان خان اچکزئی برخوردار خان اچکزئی کا بیٹا ہے ۔درانی دور حکومت میں ترکستان کا فاتح ہے ، کئ دفعہ ایران اور پنجدے کے لڑایوں میں تیمورشاہ درانی کے ساتھ مشیر اور جنگی کمانڈر کے طور پرحصہ لیا ہے، خان شہید اپنی سوانح عمری کے پہلے جلد میں لکھتےہیں، کہ کندہار کے ایک مشہور قبرستان میں مدفن ہے ، ” قبر کے تختے پر کچھ اسطرح الفاظ کشیدہ ہے، فاتح ترکستان بوستان خان اچکزئی۔
غازی عبداللہ خان اچکزئی سربلند خان اچکزئی کا بیٹا ہے ، فرسٹ افغان اینگلو وار 1839 -1841 میں انگریزوں کے خلاف کابل میں اس طرح لڑے ہے کہ انگریز کو کابل چھوڑنا پڑا ، جنوبی پشتونخوا کی مالیہ غازی عبدللہ خان اچکزئی کے سپرد تھے، خان اف کلات میر محراب خان کا مالیہ نہ دینے پر مستنگ کے مقام پر ایک دوسرے کو بند کیا کیونکہ افغانستان اور جنوبی پشتونخوا کا بارڈر مستونگ تک ہے۔ مہرو چوٹی ( مہرو غونڈے) کے لڑائی مٰیں اپنے دو بیٹوں اور ایک بھائی دلاور خان اچکزئی کے ساتھ شہید ہوگئے اور کابل میں سرہ ٹیلہ کے چوٹی کے اوپر مزراہے۔
فتح محمد خان اچکزئی ، خان شہید بابا کی والدہ بی بی دلبرہ کا دادا اور کندہار کا گورنر تھا ، میوند کے لڑائی میں اپنے بیٹے حسین خان اچکزئی سمت ایوب خان کے شانہ بشانہ 1881 میں میوند کے مقام پر انگرٰیزوں کے خلاف لڑے ہے ، بارک زئی اور سدوزئی کی لڑائی میں صلح کا بہترین کردار ادا کیا ہے 1893 میں ڈئیورنڈ کے معاہدہ کے بعد گلستان اگئے۔
حسین خان اچکزئی فتح محمد خان کا بیٹا اور خان شہید بابا کا ماں کی خاندان میں داد تھا ، سیکنڈ اافغان اینگلو وار 1881 میں میوند کے مقام پر اپنے والد فتح محمد خان کے ساتھ جنگ میں شریک تھے۔ جنگ میں خوب بہادری جرات مندی دکھانے پر ایوب خان کے ساتھ ایران اور اس کے بعد ہندوستان چلے گئے، خان شہید اپنی سوانح عمری (زما ژوند او ژوندون) کے پہلے جلد میں لکھتے ہیں کہ”
حسین خان اچکزئی 6 سال کے بعد واپس ہندوستان سے گلستان عنایت اللہ کاریز اگئے۔
خاندانی جد وجہد کے یہ سلسلہ بیسویں صدی تک جاری رہا ، اور پہلی دہائی میں خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی کی پیدائش ہوئی ، انگریز سامراجیت کا دور دورہ تھا ، پشتونخوا وطن مین پشتنو کی حالات زندگی سخت مشکل اور استحصالی تھی۔ زندگی کی ہر شعبے میں قوم غلام تھا ، تو اس وقت خان شہید یہ گھمبیر حالات غلام سماج میں نزدیک سےجانچ رہا تھا قبائلی ، اوربے علمی جمود کی وجہ سے سارے وطن میں انگریز کو خدا کا عطا کردہ بادشا ہ ہی تصور کیا کرتے تھے، پشتون قوم کی حالت کو بدلنے کے لئے خان شہید 1930 میں انگریزی سامراج کے خلاف سیاسی طور پر میدان میں اگئے ، مسلسل جد وجہد کے نتیجے میں خان شہید اور ان کے ساتھی انگریز کو وطن سے نکالنے میں کامیاب ہوگئے، قوم کو ازادی اور خپلواکی کے لئے ایک بہترین سیاسی پلیٹ فارم دیا ۔ انگریز کے خلاف پہلی ہی گرفتاری میں اپنے بڑے بھائی عبدالسلام خان اچکزئی ، چچا زاد ایوب خان اچکزئی اور مامو عیسا خان اچکزئی کے ساتھ 5 سال جیل چلے گئے۔ اس کے بعد خان شہید اپنے بڑے بھائی کے مشاورت سے قامی سیاست اور قامی تحریک کے لئے ایوب خان اچکزئی بشمول مسلسل جد وجہد کے صف میں کھڑے ہوگئے۔ ایوب خان اچکزئی ایک سیاسی مدبر رہنما کے ساتھ ساتھ ایک نابغہ سیاسی تجزیہ نگار اور ادیب بھی تھا ، ۔
خاندانی جد وجہد کے یہ سلسلہ بیسویں صدی تک جاری رہا ، اور پہلی دہائی میں خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی کی پیدائش ہوئی ، انگریز سامراجیت کا دور دورہ تھا ، پشتونخوا وطن مین پشتنو کی حالات زندگی سخت مشکل اور استحصالی تھی۔ زندگی کی ہر شعبے میں قوم غلام تھا ، تو اس وقت خان شہید یہ گھمبیر حالات غلام سماج میں نزدیک سےجانچ رہا تھا قبائلی ، اوربے علمی جمود کی وجہ سے سارے وطن میں انگریز کو خدا کا عطا کردہ بادشا ہ ہی تصور کیا کرتے تھے، پشتون قوم کی حالت کو بدلنے کے لئے خان شہید 1930 میں انگریزی سامراج کے خلاف سیاسی طور پر میدان میں اگئے ، مسلسل جد وجہد کے نتیجے میں خان شہید اور ان کے ساتھی انگریز کو وطن سے نکالنے میں کامیاب ہوگئے، قوم کو ازادی اور خپلواکی کے لئے ایک بہترین سیاسی پلیٹ فارم دیا ۔ انگریز کے خلاف پہلی ہی گرفتاری میں اپنے بڑے بھائی عبدالسلام خان اچکزئی ، چچا زاد ایوب خان اچکزئی اور مامو عیسا خان اچکزئی کے ساتھ 5 سال جیل چلے گئے۔ اس کے بعد خان شہید اپنے بڑے بھائی کے مشاورت سے قامی سیاست اور قامی تحریک کے لئے ایوب خان اچکزئی بشمول مسلسل جد وجہد کے صف میں کھڑے ہوگئے۔ ایوب خان اچکزئی ایک سیاسی مدبر رہنما کے ساتھ ساتھ ایک نابغہ سیاسی تجزیہ نگار اور ادیب بھی تھا ، ۔
خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی کاسیاسی بصیرت اور بصارت کا اندازہ اس وقت کے سیاسی اور مزہبی پارٹیوں کے ممبرشپ اور دیگر برصغیر ہند کے عظیم سیاسی رہنماوں کے ساتھ تعقات سے لگا یا جاتا ہے ۔ کانگریس کاندھی جی ، مسلم کانفرنس ، مسلم لیگ اور خدائی خدمتگار اور دیگر تنظیموں کے ساتھ اچھے روابط خان شہید بابا کی علمی اور سیاسی دانشمندی کی دلیل ہے ۔ خان شہید سیاسی بصیرت کا مشاہدہ رکھتے تھے اور جس نقطے پر اپنے قوم کی بربادی محسوس کیا کرتے تھے ، وہ بے اتفاقی اور قومی سیاست کی فقدان تھا۔لیکن اج بھی قوم وہی دو نقطوں کی وجہ سے بدترین حالت کے امنے سامنے ہیں لیکن مسلسل جدوجہد کے نتیجے میں سارے قوم اس بات پر متفق ہوگئی کہ ہمارے بھوک افلاس بے علمی ، اور ذلالت کی وجہ انگریز سامراج ہے ، اور غلامی اور ازادے کی اس لڑائی میں پشتونخوا وطن کے دیگر عظیم سیاسی دانشور اشخاص خان شہید بابا کے ساتھ اس ازادی کے قافلے میں شامل ہوگئے۔ نسلی جد وجہد میں خان شہید کا رول دیگر اکابرین سے علیحدہ ہے، اس لئے ، کہ خان شہید کا طرز جد جہد سیاسی اور جمہوری تھا ۔ قامی سیاست کے دوران خان شہید تقریبا 30 سال جیل کاٹ کر اپنی زندگی کا بہترین حصہ اپنی مٹی اور قوم کے لیے وقف کردی۔ ازادی کے ساتھ محبت کی انتہا ہے، کہ ایک شخص پوری سامراج کے سامنے کھڑا ہوکر ازادی کے گیت گائے۔ برصغیر کا یہ نڈر غازی انگریز سامراج کے سامنے نہ جھک سکا اور نہ بک سکا ۔ تاریخ کے حافظے میں تا قیامت رہے گا ۔ اور اخر کار یہ عظیم سپوت 30 سال جٰیل کاٹنے اور انگریز سامراج کے سامنے ہندوکش پہاڑ کی طرح مظبوطی سے ہر قسم طوفان کا سامنا کیا اور بالا اخر 66 سال کے عمر میں 2 دسمبر 1973 کو ادھی رات اپنے گھر میں بموں سے شہید کیا ۔