تحریر: عبدالکریم
حیات بلوچ سے اس کی حیات جس بیدردی سے چھینی گئی اس بارے میں لکھنے کیلئے کئی دنوں سے سوچ رہا تھا لیکن مجھے حیات کی لاش پر نوحہ کناہ اس کی ماں کی اٹھیں ہاتھ ، لرزتی ہوئیں اور اشکوں سے بھری کمزور آنکھیں جہنوں نے حیات کیلئے ایک کامیاب حیات کے خواب دیکھے تھے
اور ان ریزہ ریزہ خوابوں کو سمیٹنے کیلئے حیات کے سرہانے بیٹھے حیات کے بزرگ والد جنہوں نے اپنا پیٹ کاٹ کر حیات کو پڑھایا لکھایا اور حیات کو اس قابل بنایا کہ وہ ان کی عمر بزرگی کا سہارا بن سکے لیکن حیات اس کے زندگی کا روگ بن گیا۔
میں ان لمحات کی منظرکشی اور اس درد کو بیان جملوں میں پیرونے کیلئے لفظوں کا متلاشی تھا۔
الفاظ تو مجھے ملے نہیں ویسے بھی مجھ میں اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ میں ایک ایسی ماں کے درد کو قلم بند کرسکوں جس کے چاند جیسے بیٹے کو اس کی آنکھوں کے سامنے گولیوں سے چھلنی کردیا گیا ہو۔
ویسے جو زمین حیات کی خون سے سنچ گئی وہ بدقسمت سرزمین بلوچستان کہلاتی ہے جو کہ ماں کی حیثیت رکھتی ہے۔
بلوچستان بھی حیات بلوچ کی ماں کی طرح بے بس ہے اس کے بیٹے روز گود میں حیات کی طرح مارے جاتے ہیں اور بے بس بلوچستان کے منہ سے حیات کی ماں کی طرح آہ۔۔۔ نکلتی ہیں۔
حیات بھی اسی دھرتی کا بیٹا تھا جسے گولیوں نے نگل لیا بلوچستان اور اس کی ماں نے ایک آہ۔۔ پر اکتفاہ کیا اور کر بھی کیا سکتے تھے۔
یہ عمل تو اس دھرتی اور اس دھرتی کے بیٹوں کے ساتھ سالوں سے چلا آرہا ہے.ل۔
بدقسمتی اور بے بسی کا عالم تو یہ ہے کہ بلوچستان کے باسی اپنے درد کو اگر آواز دیتے ہیں تو وہ غدار ٹھہرائے جاتے ہیں۔
ان پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ غیر ملکی ایجنٹ ہیں ان کی آوازوں کو بھی مختلف حربوں سے حیات کی طرح خاموش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
یہاں تک کہ لوگ یہ پوچھنے کی جسارت نہیں کرسکتے کہ ان کی ماں بلوچستان کی کوکھ سے نکلنے والے معدنیات کہاں جاتے ہیں اور ان سے بلوچستان کو کچھ ملتا بھی ہے یا نہیں۔
ان معدنیات سے ہونے والی آمدنی کا کتنا فیصد بلوچستان کے بچوں کے مستقبل پر لگایا جاتا ہے؟
ان جیسے سوالات بلوچستان کے تعلیم یافتہ طبقے کے ذہنوں میں درج ہیں برملا تو اس بات کا ذکر نہیں کرسکتے کیونکہ انہیں خوف لا حق رہتا ہے کہ کہی انھیں غصے میں آکر حیات کی طرح گولیوں سے بھون نہ ڈالا جائے لیکن اپنے نجی محفلوں میں یہی نوجوان اپنے قسمت کا رونا روتے نظر آتے ہیں۔
بلوچستان کے نوجوان ناامیدی کی آگ میں جھلس رہے ہیں اس ناامیدی کو بزور طاقت امید میں نہیں بدلا جاسکتا کیونکہ ریاست کو اس بارے میں سوچنا چاہیے ایک واضح پالیسی جمہوری اقدار کو مدنظر رکھ مرتب کرنی چاہئے جس سے بلوچستان کی حالات کو بدلا جاسکے ورنہ رواں کشت و خون اور غیرجمہوری پالیسی بلوچستان کے نوجوانوں کے لئے غصے اور اضطراب کا باعث بن سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں