عورت مارچ ناگزیر کیوں…؟

شادی کس سے کرنے ہے کیوں کرنے ہیں اس کا فیصلہ مرد ہی کرتا ہے

تحریر: عبدالکریم
میں جس معاشرے میں پھلابڑا ہوں اس معاشرے میں عورت ایک خادمہ اور لڑکے پیدا کرنے کی مشین کی سواء کچھ بھی اہمیت نہیں رکھتی ان کی جسم پر مرد کی مرضی چلتی ہے۔

 

عورت ساری عمر مرد کے حکم کی تعمیل کرتی آرہی ہے وہ اپنی مرضی سے کھانا بھی نہیں کھا سکتی انھیں تب کھانا ہوتا ہے جب گھر کے سارے مرد کھانا ہضم کرلیے اس کے بعد جو بچ جائے وہ اس کی نصیب اور اسے وہ نوش فرماسکتی ہیں۔

 

شادی کس سے کرنے ہے کیوں کرنے ہیں اس کا فیصلہ مرد ہی کرتا ہے اب مرد پر ہی منحصر ہے کہ وہ عورت کی شادی معذور، بزرگ ، بچے یا کسی ایسے شخص سے کروائے جس کی پہلے سے دو شادیاں ہوں لیکن وہ امیر ہے وہ عورت کی بدلے میں پیسے(ولور) زیادہ دئے رہا ہے تو وہی حقدار ہے شادی رچانے کیلئے۔

 

تعلیم تو مذکورہ معاشرے میں شجرِممنوع ہے یہاں تو بیٹی گلی میں بیٹھ کر چاول چھولے بیچ سکتی ہے دکاندار سے نسوار اور سیگریٹ لانے جاسکتی ہے لیکن سکول جانے سے بچی کی والدین کی غیرت مجروح ہوجاتی ہے کیونکہ سوچ یہی پایا جاتا ہے کہ عورت صرف جنسی تعلق کیلئے بنی ہوئی ہے اگر بچی سکول جائیگی اور پڑھ لکھ لیے گئی تو وہ غیر مردوں سے تعلق استوار کر لیے گئی

 

یہ بھی پڑھیں
1 of 8,950

جس سے معاشرے میں والدین کی بدنامی ہوگئی لیکن بیٹوں کو پورا حق حاصل ہے کہ وہ کسی کی بھی بیٹی کو گھور سکتا ہے ان سے تعلق استوار کرسکتا ہے اس متعلق سوچ یہ ہے کہ مرد کچھ بھی کرسکتا ہے مرد تو مرد ہے اگر وہ بدنام بھی ہوگیا تو وہ شادی تو کرسکتا ہے لیکن جب عورت بدنام ہوتی ہے تو اس سے کون شادی کریگا۔اس لیے تعلیمی شرح صفر ہے

 

مذکورہ معاشرے کے لوگ بڑے پارسا اور دیندار خود کو گردانتے ہیں لیکن بیٹی کو میراث سے اس لیے محروم رکھی جاتی ہے کہ ان کی شادی ہوگئی ہوتی ہے اگر نہیں ہوئی ہو تو تب کہا جاتا ہے کہ اس کی شادی ہمارے اوپر فرض ہے کرا دیں گئے اور پھر بجائے کے اس میراث میں حصہ دئے بلکہ الٹا اس کی شادی کی بدلے میں اس بیٹی یا بہن کی سسرال والوں سے ڈھیر سارے پیسے لے لیتے ہیں اور اس کو عزت سے تعبیر کرتے ہیں کہ فلاں نے اپنی بیٹی یا بہن کا ولور مد میں اتنے لاکھ روپے لیے تو مطلب یہ ہے کہ میراث میں مذکورہ معاشرے میں عورت کا کوئی حق نہیں ہے۔
میرے معاشرے میں عورت کی صحت کا درمدار تعویذوں ، زیارتوں اور حکیموں پرہے ان مذکورہ معالجوں سے علاج کروانے سے پہلے ایک بیمار عورت ایک ماہ تو اس امید پر گزار لیتی ہے کہ خودبخود صحت یاب ہوجاؤں گئی ۔

 

اس معاشرہ میں ایک عورت مردوں کی لڑائیوں میں قربانی کا بکرا بھی بنتی ہے فریقین کو راضی کرنے کیلئے یا کسی نقصان کے ازالہ کرنے کے بدلے میں عورت کو دوسرے فریق کے حوالے کی جاتی ہیں اور اس صورت میں نہ تو کوئی باقاعدہ شادی کی سومات اداء کیجاتی ہے اور نہ کوئی جہیز دیا جاتا ہے۔

 

یہ تمہید باندھنے کا مقصد یہ تھا کہ عورت مارچ پر مرد کا غیرت تو جاگ اٹھتا ہے لیکن کبھی بھی اپنے گریبان میں نہیں جھانکتا کہ ہم کیا کررہے ہیں کہ کہی ہم نے تو عورتوں کو اس مقام پر لاکر کھڑا تو نہیں کیا کہ وہ آج سرکشی پر اتر آئی ہیں

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.