آخر کار وہی ہوا جس کا ڈر تھا

تحریر: شیرین کریم
گلگت بلتستان اسمبلی میں  خواتین پیراشوٹرز بھی پہنچ گئیں… پیراشوٹرز سے مراد ہے کہ جن کی نہ ہی پارٹی کے لیے کہیں خدمات ہیں اور نہ وہ کبھی عوام میں نظر آئیں ہیں۔ایسی خواتین اسمبلی میں چپ کا روزہ رکھنے کے علاو کربھی کیا سکتی ہیں ۔گلگت بلتستان اسمبلی میں نو منتخب ممبران خواتین سے مل کر تھوڑی مایوسی ہوگی کیونکہ یہ وہ خواتین ہیں جو اسمبلی میں گلگت بلتستان کی خواتین کی نمائندگی کرتی ہیں اگر یہ خواتین بھی چپ کا روزہ رکھنے والی آپنی زاتی مفادات کیلئے آئیں ہیں تو پھر تو گلگت بلتستان کی خواتین کا اللہ ہی حافظ ہے…
گلگت بلتستان میں سیاسی خواتین جو سیاست کے میدان میں اپنا نام کما لیا جو عوام میں ہیں اور کام کررہی ایسی خواتین کو نظر انداز کیا گیا ،وہ خواتین جن کی پارٹی کیلئے خدمات تھیں انکو بھی نظر انداز کیا گیا۔سیاسی خواتین نے الیکشن کے دوران اپنی پارٹی کے لیے بھی مردوں سے بھی بڑھ کر کام کرتی نظر آئیں جن کا نام لینا میں مناسب نہیں سمجھتی اور ایسی خواتین کو لایا گیا ہے جن کو یہ بھی پتہ نہیں کہ وہ اسمبلی کیوں آئیں ہیں اور ان کا کیا کام ہے؟؟؟
خواتین کی مخصوص نشستوں پر آنے والی خواتین سے  جب سوال کیا گیا کہ آپ اسمبلی کیوں آئیں ہیں اور گلگت بلتستان کی خواتین کے لیے کیا کرینگی تو انکے پاس جواب نہیں تھا ….
تو میں یہ بتانا چاہوں گی کہ آپ کا کام صرف اسمبلی آنا نہیں بلکہ گلگت بلتستان کے تمام خواتین کی نمائندہ آپ کو چنا گیا ہے آپ کے مسائل حل کرنے کی کوشش کریں۔خواتین بے پناہ مسائل کا شکار ہیں انکے لئے بل پاس کریں …. تنظیم سازی کرنا آپ کا کام ہے یہ پانچ سال کی چاندنی پلک جھپکتے گزر جائے گی۔۔۔۔۔2015 کی اسمبلی میں موجود خواتین ممبران  پہ نظر ڈالی جائے تو مایوسی کے سواکچھ نہیں ملتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
1 of 8,950
مسلم لیگ ن کے دور میں بھی 4 حکمران جماعت سےاور 2 اپوزیشن جماعت سے تھی۔۔۔ان 6 خواتین نے مل کہ نہ کوئی خواتین کے بنیادی حقوق پہ قانون سازی کر سکی نہ ہی آواز بلند کر سکی ۔۔۔۔ہم  اکثر اسمبلی اجلاس کے کوریج کے لئے جاتے رہے ہیں ۔۔۔مجال ہے کوئی خاتون اپنی سیٹ سے آٹھ کہ خواتین کے حقوق کے متعلق بات کرتی۔

5 سال خواتین کی جانب سے مکمل خاموشی رہی، بات صرف یہاں تک نہیں بلکہ جب وقت گزرتا گیا خواتین ممبران نے اسمبلی اجلاس سے غیر حاضر بھی ہوتی رہی 2سال تک ایک معزز رکن اسمبلی نے اسمبلی اجلاس میں مسلسل شرکت نہیں کی بلکہ ایک اور رکن اسمبلی نے بھی ایک سال تک اسمبلی کے کسی اجلاس میں شرکت نہیں کر رہی تھی۔

یہ سلسلہ جاری رہا اور انکا وقت گزر گیا،اسمبلی میں صرف اپنی ذاتی مفادات کیلئے نہیں بلکہ گلگت بلتستان کی خواتین کیلئے کام کرنے کی ضرورت ہے اگر آج کے اس جدید دور میں بھی آج کی خواتین اپنے حقوق کے لیے آواز بلند نہیں کرسکی تو میری نظر سے ہم اب بھی پتھر دور کی زندگی میں ہیں اور ہم پر بہت جلد دوسرے لوگ آکر حکمرانی کریں گے اور ہم وہی کے وہی رہ جائیں گے۔

گلگت بلتستان اسمبلی میں چند ایک خواتین نے اپنے آپ کو منوایا اور کوئی کام کیا ہے اب ضرورت اس امر کی ہے کہ گلگت بلتستان کی خواتین کی ترقی،خوشحالی ،تعلیم ،صحت،ہنر مند بنانے کے لیے ان خواتین کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.