ہماری رائے کون بناتا ہیں

امریکہ نے 2003 میں نہ صرف عوام کی بلکہ دنیا کے حکمرانوں کی رائے بھی میڈیا کے ذریعے ہی بنائی

تحریر: عبدالکریم
نائن  الیون کا واقعہ  ہوچکا تھا جارجڈبلیو بش  جنگ کی تیاری میں مگن تھا۔اسامہ بن لادن  کو امریکہ کے حوالگی کیلئے  امریکا  طالبان پر دباو ڈال رہا تھا۔  طالبان  اسامہ  بن لادن کو  امریکہ کے حوالے کرنے سے انکاری تھے۔  وہ ثبوت مانگ رہے  تھے۔۔ لیکن  امریکہ ساری دنیا کو  میڈیا کے ذریعے باور کروا چکا  تھا کہ  نائن الیون  اسامہ بن لادن کا  ہی کارنامہ ہے۔
پاکستان کا وفد ایک جنرل کی سربراہی میں  جس میں علماء بھی شامل تھے قندہار  سے ناکام  مزاکرات کے بعد واپس لوٹے۔ جنگ یقینی ہوچکی تھی جنگی ماہرین کو اس  جنگ  کی تباہی کا  ادارک  تھا جبکہ دوسری جانب ایک ایسی  قوم بھی تھی جو سمجھ رہی تھی کہ اسامہ بن لادن  ایک  طاقتور  شخص ہے  جو امریکہ کو نیست و نابود کر کے رکھ دے گا۔
مذکورہ جنگ  کے  دوران  دو  طرح کی رائے قائم ہورہی تھی۔  ایک  را ئے تھی جو  کہ منظم ایجنڈے  کے  تحت   میڈیا  کے ذریعے لوگوں کی ذہنوں تک پہنچ رہی تھی۔  دوسری  رائے  مذہبی رہنماوں، ملاوں اور  محلوں  کے تجزیہ نگاروں کی تھی۔دونوں سے لوگ متاثر ہورہے تھے۔  افغانستان  اور پاکستان میں زیادہ تر  لوگوں کے اوپنین  لیڈر  مذہبی  رہنما،ملا اور  محلوں کے تجزیہ نگار تھے جبکہ مغربی دنیا میں لوگوں کے اوپنین لیڈر  امریکا پروپیگنڈہ گروپ تھا  اور  وہ میڈیا کے ذریعے  لوگوں  کی رائے بناتا رھا۔ 
 امریکہ نے 2003 میں نہ صرف عوام کی بلکہ  دنیا کے حکمرانوں کی رائے  بھی میڈیا کے ذریعے ہی  بنائی اور یہ باور  کروایا کہ صدام حسین  کے پاس کیمیائی ہتھیار ہیں،  اور وہ دنیا کیلئے خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔ چڑھائی کے لئے راہ ہموار کرنے کے بعداس بہانہ کے تحت امریکہ نے  اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر عراق پر چڑھائی کردی.
مذہبی رہنما، ملا اور گلی کے تجزیہ نگار لوگوں کی رائے افغان امریکہ جنگ کے بارے میں  جذبات پر قائم کیا کرتے تھے۔ان کی رائے تھی کہ امریکا  کو شکست دینے کیلئے  اسامہ بن لادن کافی ہیں۔  وہ بہت امیر ہے  جنگ کے سارے اخراجات  وہی برداشت کرسکتا ہے۔ امریکہ  آ تو  جائے گا لیکن  اس کا خطے سے نکلنا مشکل ہے۔  گلی کے چوراہوں پر بیٹھے  تجزیہ نگار تو  یہاں تک کہا کرتے تھے کہ اسامہ بن لادن کے پاس  جوہری ہتھیار ہیں جس سے وہ امریکا کو تباہ کردے گا۔
میں چونکہ اس وقت چھوٹا تھا لیکن  سیاست  سے شغف تھا۔ حالات حاضرہ  پر تبصرہ سننے کیلئے  عصر کے  نماز کے بعد گلی کی نکھڑ پر  جمنے والی بزرگوں کی  محفل  کے ایک کونے میں بیٹھ جایا کرتا تھا۔میرے بھی ہم عصر بچوں کا ایک حلقہ تھا  جن کا میں اوپنین لیڈر تھا۔ میرے  اوپنین لیڈر وہی بزرگ تھے  جن کے  مطابق  امریکہ عنقریب صفہ ہستی سے مٹنے والا  ہے ۔ہماری رائے  بالکل اس  بابت پختہ تھی۔
یہ بھی پڑھیں
1 of 8,950
کہی سال گزرنے کے بعد بھی اس خطے کا  حال  وہی ہے۔  کورنا وائرس نے دنیا کو لپٹ میں لے رکھا ہے اس بابت دو متضا د  رائے  ہونے کی وجہ سے  اس مرض  سے نمٹنے میں  دقت پیش  آرہی ہے۔ 
 ڈاکٹرز کے رائے کے مطابق  سماجی  دوری  اور احتیاطی تدابیر  اس کا واحد علاج ہے۔  اس  رائے کو  قائم کرنے کیلئے  اور اس طرف لوگوں کی ذہنوں کو مائل کرنے کیلئے  میڈیا کا سہارا  لیا جار ہا ہے۔ مغربی دنیا نے اس بات کو مان لیا۔  لیکن  جس خطے میں ہم رہ رہے  ہیں، وہ اس نقطہ نظر کو  سازش گردانتے ہیں۔مذہبی رہنماوں، ملاوں اور گلی محلوں کے تجزیہ نگاروں  کی  رائے  جو ایک نقطہ ہے  یعنی” سازش” کو  وہ سچ  سمجھتے ہیں۔ اس رائے  کا اظہارہر ایک اپنے حلقہ ا حباب میں کرتے ہیں۔ 
جس کی  ایک اہم مثال یوم علی(رض) کے موقعے  پر  جلوسوں  سے لی جا سکتی ہے۔ اسی طرح  اکثر مساجد میں  دوران نماز  احتیاطی تدابیر  نہ  اپنانا بھی ہے۔  اکثر ایسی  تدابیر کو خلاف عقیدہ اور عقیدے کی کمزروی  کا سبب  سمجھتے ہیں.
یاد رہے  ہم ایک ایسے معاشرے میں رہ رہے  ہیں  جہاں  کی اکثریت  کچھ مخصوص لوگوں کی رائے کو  سارے  معاشرے کی رائے سمجھتے ہیں۔خود کی رائے بہت ہی کم لوگ قائم کرتے ہیں۔ ان ہی لوگوں کی رائے  کے پرچار لوگ کرتے ہیں۔ خود بہت کم سوچتے ہیں.
You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.